بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث ’’جس میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھ سکے گا‘‘ کی تحقیق


سوال

1- جس میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھ سکے گا حدیث کی تحقیق مطلوب ہے۔

2- اس سے مرادوہ مسلمان بھی ہیں جو شرک سے بچے ہوۓ ہیں ؟

3- کیا وہ شخص کبھی جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا یا جنت میں داخل نہ ہوگا ؟

4- اس قسم کی احادیث کا مفہوم کیا ہوتا ہے؟  براۓ مہربانی واضح کردیں ۔

جواب

1- مذكوره روايت كتب اهل سنت ميں تو ہمیں کہیں نہیں مل سکی ، البتہ شیعہ مصنفین میں مشہور ’’شیخ طبرسی‘‘ نے   ایک طویل روایت ’’وصیۃرسول اللہ صلی اللہ لابی ذر رضی اللہ عنہ‘‘ کے عنوان کے ضمن میں  اس طرح کے الفاظ کو نقل کیا ہے ،   ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں : 

" يا أبا ذر! من مات وفي قلبه مثقال ذرة من كبر لم يجد رائحة الجنة إلا أن يتوب قبل ذلك. "

(مكارم الأخلاق للطبرسي، الفصل الخامس في وصية رسول الله صلي الله عليه وسلم لأبي ذر الغفاري رضي الله عنه، (ص: 173) ط/ المطبعة الميمنية بمصر 1306ه)

لہذا جب تک  اس  روایت کا معتبر سند سے وارد ہونا ثابت نہ ہوجائے، اس کے بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔

 البتہ کتب اہلِ سنت  میں معتبر سند   سے  ایک اور روایت موجود ہے کہ’’ایسا آدمی جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا‘‘، روایت ملاحظہ فرمائیں :

صحيح مسلم  شریف میں ہے: 

" عن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « لايدخل النار أحد في قلبه مثقال حبة خردل من إيمان، ولايدخل الجنة أحد في قلبه مثقال حبة خردل من كبرياء». "

ترجمہ:حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: کوئی آدمی دوزخ میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا اور کوئی ایسا آدمی جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا۔

(صحيح مسلم، باب تحريم الكبر وبيانه، (1/ 93) برقم (148)،  ط/ دار إحياء التراث العربي- بيروت)

2- جو مسلمان تكبر كے کبیرہ گناہ میں مبتلا رہا ہو ، اور خدا تعالي سے  توبہ بھی نہ کی ہو، اور اسی حالت میں  فوت ہوا ہو تو  پہلے  پہل  جنت میں داخل نہیں ہوگا ،(يعني  یہاں دخولِ اوّلی کی نفی ہے) بلکہ اپنے گناہ کی بقدر جہنم میں سزا پاکر پھر (بعد میں) جنت میں داخل ہوگا ،  البتہ   اگر اللہ تعالي نےاسے معاف کردیا تو پھریہ بھی  ابتداءً جنت  میں جا سکے گا ۔ 

امام  نَوَوِی رحمہ اللہ کی  شرح صحیح مسلم  ’’المنہاج‘‘ میں ہے : 

" وأما قوله صلى الله عليه وسلم لايدخل الجنة من في قلبه مثقال ذرة من كبر: فقد اختلف في تأويله، فذكر الخطابي فيه وجهين: أحدهما: أن المراد التكبر عن الإيمان فصاحبه لا يدخل الجنة أصلا إذا مات عليه، والثاني: أنه لا يكون في قلبه كبر حال دخوله الجنة كما قال الله تعالى *ونزعنا ما في صدورهم من غل* وهذان التأويلان فيهما بعد، فإن هذا الحديث ورد في سياق النهي عن الكبر المعروف، وهو الارتفاع على الناس واحتقارهم ودفع الحق، فلا ينبغي أن يحمل على هذين التأويلين المخرجين له عن المطلوب، بل الظاهر ما اختاره القاضي عياض وغيره من المحققين: أنه لا يدخل الجنة دون مجازاة إن جازاه، وقيل هذا جزاؤه لو جازاه، وقد يتكرم بأنه لا يجازيه، بل لا بد أن يدخل كل الموحدين الجنة، إما أوّلا، وإما ثانياً بعد تعذيب بعض أصحاب الكبائر الذين ماتوا مصرين عليها، وقيل لا يدخلها مع المتقين أول وهلة. " 

(المنهاج شرح صحيح مسلم، باب تحريم الكبر وبيانه، (2/ 91)، ط/ دار إحياء التراث العربي- بيروت)

3- مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ تکبر کرنے والے(گناہ کبیرہ کے مرتکب) کے بارے معتبر طور پر  یہی بات ثابت ہے کہ وہ ابتدا میں جنت میں داخل نہیں ہوگا، جنت کی خوشبو نہ پانا معتبر سند  سے نہیں مل سکی  ۔

4- اس قسم کی روایات جن میں مرتکبِ کبیرہ کے بارے  دخولِ جنت کی نفی وغیرہ منقول ہے، اس سے مراد دخولِ اوّلی کی نفی ہی مراد ہے ، کیونکہ مرتکبِ کبیرہ بہر حال مسلمان ہی ہوتا ہے کافر نہیں ہوتا، اور مذکورہ حدیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ ’’ کوئی آدمی دوزخ میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا‘‘ ، تو لہذا   جب اس کے دل میں ابمان موجود ہے تو وہ اپنی سزا بھگت کر پھر جنت میں داخل ہوگا ۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144510101419

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں