بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ہدیہ ملے جانور کی قربانی کا حکم


سوال

اگر میں نے زید کو قربانی کا جانور خرید کر دیا  اس حال میں کہ زید خود   بھی صاحب نصاب تھا، توکیا زید کے لیے  اس جانور کی قربانی کرنا  درست ہوگا۔برائے مہربا نی جواب مع حوالہ دیں۔

جواب

واضح رہے کہ جو شخص أيام نحر میں صاحب نصاب ہو اس پر  قربانی کرنا واجب ہوتا ہے، وجوب کی ادائیگی کے لیے اپنا مملوکہ جانور ( خواہ وہ اپنے ذاتی پیسوں سے خریدا ہو، یا کسی نے ہبہ کیا ہو)   ذبح کرنا شرعا ضروری  ہوتا ہے،  لہذا صورت مسئولہ میں سائل نے اگر زيد کو قربانی کا جانور ہدیہ کیا ہو تو ایسے جانور کی قربانی کرنے سے زيد کی قربانی ادا ہوجائے گی، البتہ سائل نے   قربانی کا  مذکورہ جانور  اگر زيد  کو   اس لیے دیا ہو کہ زيد سائل کی جانب سے قربانی کردے، تو اس صورت میں ایسے جانور کی قربانی سے سائل کی قربانی تو ادا ہوجائے گی، تاہم زيد کی جانب سے ادا نہ ہوگی، اسے الگ سے قربانی کرنا ضروری ہوگا۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"وشرعا (ذبح حيوان مخصوص بنية القربة في وقت مخصوص. وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر.

(قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا، وقيل لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفا، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم، وصاحب الثياب الأربعة لو ساوى الرابع نصابا غنى وثلاثة فلا، لأن أحدها للبذلة والآخر للمهنة والثالث للجمع والوفد والأعياد، والمرأة موسرة بالمعجل لو الزوج مليا وبالمؤجل لا، وبدار تسكنها مع الزوج إن قدر على الإسكان.

له مال كثير غائب في يد مضاربه أو شريكه ومعه من الحجرين أو متاع البيت ما يضحي به تلزم، وتمام الفروع في البزازية وغيرها."

( كتاب الأضحية، ٦ / ٣١٢، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102078

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں