بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج ایک مرتبہ فرض ہونے کے بعد تاخیر کی صورت میں فرضیت ساقط نہیں ہوتا


سوال

عرض ہے کہ سن 2020 میں ریٹائر منٹ پر حج کی نیت سے پیسے مختص کیے تھے، لیکن کورونا کے دوران حج پر نہ جاسکا اور بعد ازاں وہ رقم بچوں کی شادیوں پر لگ گئی،اب حج کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں ہیں،  البتہ ایک رہائشی مکان اور سواری کےلیے ذاتی گاڑی موجود ہے۔ کیا ایسی صورت میں حج ذمہ سے ساقط ہوگیا یا ضرورت کا مکان اور سواری کو بیچ کر حج ادا کرنا ضروری ہوگا؟  

جواب

واضح رہے کہ جس  شخص پر موسمِ حج میں حج فرض ہو جائے اس پر لازم ہے کہ  جس قدر جلد ممکن ہو  حج ادا کر  لے،  حدیث شریف میں ہے:  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حج کی ادائیگی میں جلدی کرو ،  کسی کو کیا خبر کہ بعد میں  بعد میں کوئی مرض یا کوئی اور ضرورت لاحق ہو جائے، حج فرض ہونے کے بعد وقت ملنے پر بھی  بلا عذرِ  شرعی   تاخیر کرنا گناہ ہے،تاہم اگر زندگی  میں ادا کر لیا تو ادا ہو جائے گا اور تاخیر کا گناہ بھی نہ رہے گا، اور اگر زندگی میں ادا نہ کر سکا تو گناہ گار  ہو گا اور اگر مرنے سے پہلے حج کرنے کے اسباب بن جائیں تو حج ادا کرلے،  ورنہ حجِ بدل کی وصیت کرنا ضروری ہوگا، پھر اگر اس کے ترکہ میں مال ہوتو ورثاء پر ایک تہائی مال میں سے حج ِبدل کرانا لازم ہوگا، اور اگر ترکہ میں مال نہ ہو  تو ورثاء پر حج بدل کرانا لازم تو نہیں ہوگا، البتہ اگر خوشی سے حج بدل کرادیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔

صورتِ مسئولہ  میں سائل کے ذمہ حج بدستور فرض ہے  کرونا پابندیوں کی وجہ سے نہ جا سکنے کی صورت میں ساقط نہیں ہوا جس طرح  ممکن ہو اس کی ادائیگی کوشش کی جائے اور اس کے لیے جو بھی ترتیب مناسب سمجھیں اس کے مطابق عمل کریں، خواہ گاڑی وغیرہ بیچ کر یا جو بھی صورت ہو سکےحج ادائیگی یقینی بنائیں، اگر زندگی میں ادا نہ کر سکیں تو مرنے سے پہلے حجِ بدل کی وصیت کرنا ضروری ہوگا،  پھر اگر اس کے ترکہ میں مال ہوتو ورثاء پر ایک تہائی مال میں سے حج ِبدل کرانا لازم ہوگا، اور اگر ترکہ میں مال نہ ہو  تو ورثاء پر حج بدل کرانا لازم تو نہیں ہوگا، البتہ اگر خوشی سے حج بدل کرادیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے:

"تعجلوا الخروج إلى مكة فإن أحدكم لايدري ما يعرض له من مرض أو حاجة. "الديلمي عن ابن عباس".

(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، ج: 5، صفحہ: 16، رقم الحدیث: 11851، ط: مؤسسة الرسالة)  

فتاوی شامی میں ہے:

"(على الفور) في العام الأول عند الثاني وأصح الروايتين عن الإمام ومالك وأحمد فيفسق وترد شهادته بتأخيره أي سنينا لأن تأخيره صغيرة وبارتكابه مرة لا يفسق إلا بالإصرار بحر ووجهه أن الفورية ظنية لأن دليل الاحتياط ظني، ولذا أجمعوا أنه لو تراخى كان أداء وإن أثم بموته قبله وقالوا لو لم يحج حتى أتلف ماله وسعه أن يستقرض ويحج ولو غير قادر على وفائه ويرجى أن لا يؤاخذه الله بذلك، أي لو ناويا وفاء إذا قدر كما قيده في الظهيرية.

(قوله: كان أداء) أي ويسقط عنه الإثم اتفاقا كما في البحر قيل: المراد إثم تفويت الحج لا إثم التأخير. قلت: لا يخفى ما فيه بل الظاهر أن الصواب إثم التأخير إذ بعد الأداء لا تفويت وفي الفتح: ويأثم بالتأخير عن أول سني الإمكان فلو حج بعده ارتفع الإثم اهـ وفي القهستاني: فيأثم عند الشيخين بالتأخير إلى غيره بلا عذر إلا إذا أدى ولو في آخر عمره فإنه رافع للإثم بلا خلاف."

(کتاب الحج، ج: 2، صفحۃ: 455 و456، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو ملك ما به الاستطاعة حال كفره ثم أسلم بعد ما افتقر لايجب عليه شيء بتلك الاستطاعة بخلاف ما لو ملكه مسلما فلم يحج حتى افتقر حيث يتقرر الحج في ذمته دينا عليه كذا في فتح القدير."

(كتاب المناسك، الباب الأول في تفسير الحج، وفرضيته ووقته وشرائطه، وأركانه، ج: 1، ص: 216، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102258

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں