میڈیکل لیبارٹریز میں انسانوں کی صحت کی خاطر ہر آئے دن یا وقت کے مطابق نئی ادویہ کے تجربات کیے جاتے ہیں، طبی تحقیقاتی مراکز میں تحقیقاتی ادویہ کے لیے کلینیکل ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، یہ کلینیکل ٹیسٹ کبھی حیوانات پر کیے جاتے ہیں اور کبھی انسانوں پر کیے جاتے ہیں،جو میڈیکل سائنس کے اصولوں کے مطابق تو ہوتے ہیں، لیکن درج ذیل دو صورتوں میں فقہ حنفی کے مطابق حکم اور اس کی دلیل چاهيے۔
1۔ حیوانات پر نئی ادویہ یا نئی طبی تحقیقات تجربہ کرنے کا شرعاکیا حکم ہے؟
2۔انسانوں پر نئی ادویہ کا تجربہ کرنے کا شرعاً کیا حکم ہے؟
یہ دونوں صورتیں فقہ حنفی کے مطابق جائز ہیں یا نہیں ، دونوں صورتوں میں مکمل مدلل تحقیق عنایت فرمائیں۔
1۔اللہ پاک نے جانوروں کو انسان کی ضرورت اور نفع کےلیے پیداکیاہے، انسان کی غذائی اور دیگر ضروریات کےلئے جب جانوروں کی جان تک لینے کی اجازت دی گئی ہے ، تو طبی ضروریات کےلئے محض جزوی نقصان کی گنجائش کیوں نہ ہوگی ، جیسا کہ بعض مواقع پر مخصوص مصالح کے تحت فقہاء کرام نے جانوروں کے جسم پر (چہرہ چھوڑ کر) آگ سے داغنے کی اجازت دی ہے،طبی تحقیقات اور میڈیکل تجربات بھی انسانی ضروریات میں شامل ہیں ، انسان کے نظام صحت کی بنیاد ان پر ہے ، اس لئے طبی مقاصد کےلئے جانوروں کا استعمال درست ہے، یہ تعذیب بلافائدہ نہیں ہے، بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ نقصان کی تلافی کا بھی انتظام موجود ہو ، جانوروں کو ایسی تکلیف پہونچانا جس میں خود اس کا یا عام انسانوں کا نفع ہو، ناجائز نہیں ہے۔
جانوروں سے انتفاع کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دواؤں کےلئے زندہ جانور کو بے ہوش کرکے اس کے کسی عضو کو نکال لیاجائے یا آپریشن کرکے اس کی جگہ پر کوئی دوسرا مصنوعی آلہ رکھ دیا جائے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بشرطیکہ یہ جانور کی معذوری یاناقابل برداشت اذیت کا باعث نہ بنے، بصورت دیگرضروری ہوگا کہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد ہی اس کے اجزاء سے طبی استفادہ کیا جائے، اور تکلیف دہ زندگی میں جانور کو مبتلا نہ کیا جائے، فقہاء کرام نے تعلیمی اغراض کےلئے جانور کا جسم ذبح کے بعد استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔
2۔طبی تحقیقات کا تجربہ کسی انسان پر کرنے میں تفصیل یہ ہے: کہ جس شخص پر طبی تجربہ کرنا ہو، اگر وہ شخص مریض ہے اور پرانے طبی طریقے اس کے مرض کے علاج کےلئے کار آمد نہ ہوں،اور کوئی ماہر ڈاکٹر اس کےلیے بطور تجربہ کوئی نئی دوا تجویز کرے،تو ایسا کرنے کی شرعاً اجازت ہوگی، البتہ کسی صحت مند انسان کو تختۂ مشق بنانا جس میں اس کی جان جانے یا عضو تلف ہونے کا خطرہ ہو،اس کی شرعاً اجازت نہیں ہوگی، نیز صحت مند انسان کےلئے اپنے آپ کو طبی تجربات کےلئے پیش کرنےکی بھی اجازت نہیں، البتہ اگر صحت مند انسان کےلئے نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو اس صورت میں تجرباتی طورپر ڈاکٹر کےمشورہ سےنئی دوا استعمال کرنےکی گنجائش ہوگی،تاہم بلا ضرورت ادویہ استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔
قرآن مجید میں ہے:
"هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً."(سورة البقرة، الآیة: 29)
ترجمہ: وہ ذات پاک ایسی ہے جس نے پیداکیا تمہارے فائدے کےلیے جو کچھ زمین میں موجود ہے سب کا سب(بیان القرآن)
وَالْأَنْعامَ خَلَقَها لَكُمْ فِيها دِفْءٌ وَمَنافِعُ وَمِنْها تَأْكُلُونَ (النحل،الآیة:5)
ترجمہ: اور اس نے چوپایوں کو بنایا ان میں تمہارے جاڑے کا بھی سامان ہے اور بہت سے فائدے ہیں اور وہ ان میں سے کھاتے بھی ہو(بیان القرآن)
"وَلا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَاّ بِالْحَقِّ."(سورة الإسراء، الآیة:33)
ترجمہ: اور جس شخص کے (قتل) کو اللہ تعالی نے حرام فرمایاہے اس کو قتل مت کرو مگر حق پر(بیان القرآن)
وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فِيها وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظِيماً (سورة النساء، الآیة:93)
ترجمہ:” اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہنا اور اس پر اللہ تعالٰی غضب ناک ہوں گےاور اس کو اپنی رحمت سے دور کردیں گےاور اس کےلئے بڑی سزا کا سامان کریں گے“۔(بیان القرآن)
وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْناهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْناهُمْ مِنَ الطَّيِّباتِ وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلاً (سورة الإسراء، الآیة:70)
ترجمہ:”اور ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا اور نفیس نفیس چیزیں ان کو عطافرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی ۔“(بیان القرآن)
"إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ كُلُّ أُولئِكَ كانَ عَنْهُ مَسْؤُلاً ." (الإسراء، 36)
ترجمہ:”کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی (قیامت کے دن) پوچھ ہوگی۔“
صحیح مسلم میں ہے:
"حدثنا عبد العزيز بن أبي حازم عن أبيه؛ أنه سمع سهل بن سعد يسأل عن جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم، يوم أحد؟ فقال:جرح وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكسرت رباعيته، وهشمت البيضة على رأسه. فكانت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم تغسل الدم. وكان علي بن أبي طالب يسكب عليها بالمجن. فلما رأت فاطمة أن الماء لا يزيد الدم إلا كثرة، أخذت قطعة من حصير فأحرقته حتى صار رمادا. ثم ألصقته بالجرح. فاستمسك الدم."
(کتاب الجھاد والسیر، باب: غزوة أحد، ج:3، ص:1416، الرقم:1790، ط: مطبعة عيسى البابي الحلبي)
ترجمہ: ”حضرت عبدالعزیز بن ابوحازم رضی اللہ عنہ کی اپنے باپ سے روایت کرتے ہے کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد کے دن زخمی ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس زخمی کیا گیااور آگے سے ایک دانت ٹوٹ گیااور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک میں ٹوٹ گئی تھی ، فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خون دھوتی تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ڈھال میں پانی لاکر ڈال رہے تھے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ پانی سے خون میں کمی نہیں بلکہ زیادتی ہورہی ہے انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا یہاں تک کہ راکھ بن گئی پھر اسے زخم پر لگادیا جس سے خون رک گیا۔“
وفیه أیضاً :
"عن جابر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: « لكل داء دواء، فإذا أصيب دواء الداء برأ بإذن الله عز وجل."
(کتاب السلام، باب: لكل داء دواء، واستحباب التداوي، ج:7، ص:21، الرقم:2204، ط:دار الطباعة العامرة - تركيا)
ترجمہ:” حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بیماری کی دوا ہے جب بیمار کی دوا پہنچ جاتی ہے تو اللہ کے حکم سے وہ بیماری دور ہوجاتی ہے۔“
المحیط البرہانی میں ہے:
"فأما كي البهائم فقد كرهه بعض المشايخ، وبعضهم جوزوه؛ لأن فيه منفعة ظاهرة فإنها علامة، وعن رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنه نهى عن كي الحيوان على الوجه، فهذا يشير إلى جوازه على غير الوجه."
(کتاب الاستحسان، الفصل العشرون فی الختان، ج:5، ص:376، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)
المفہم لماأشکل من تلخیص کتاب مسلم میں ہے:
"وهذه الأحاديث كلها تدل على جواز كي الحيوان لمصلحة العلامة في كل الأعضاء إلا في الوجه. وهو مستثنى من تعذيب الحيوان بالنار؛ لأجل المصلحة الراجحة. وإذا كان كذلك، فينبغي أن يقتصر منه على الخفيف الذي يحصل به المقصود، ولا يبالغ في التعذيب، ولا التشويه. وهذا لا يختلف فيه الفقهاء إن شاء الله تعالى."
(کتاب اللباس، باب النھی عن وسم الوجوہ، ج:5، ص:438، الرقم:2029، ط: دار ابن کثیر)
البحرالرائق میں ہے:
"أن البهائم كانت تكثر في زمنه صلى الله عليه وسلم فتكوى بالنار لأجل المنفعة للمالك فكذا يجوز هذا الفعل لتعود المنفعة للمالك وفي الصحاح جمع خصي هو خصا بكسر الخاء والرجل خصي وخصية.
قال العيني والخصيان بضم الخاء جمع خصي وفي المحيط أن الأصل إيصال الألم إلى الحيوان لمصلحة تعود إلى الحيوان يجوز ولا بأس بكي البهائم للعلامة."
(کتاب الکراھیة، خصی البھائم، ج:8، ص:232،ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ويكره تعليم البازي بالصيد الحي يأخذه ويعذبه ولا بأس بأن يعلم بالمذبوح كذا في محيط السرخسي."
(کتاب الکراھیة ، الباب الحادی والعشرون، ج:5، س:361، ط: المطبعة الکبریٰ الأمیریه)
الاختیارلتعلیل المختار میں ہے:
"ويكره تعليم البازي وغيره من الجوارح بالطير الحي يأخذه فيعذبه، ولا بأس بتعليمه بالمذبوح."
(کتاب الکراھیة، فصل فی السبق والرمی، ج:4، ص:168، ط: مطبعة الحلبي - القاهرة)
السنن الکبریٰ للبیہقی میں ہے:
"أن رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قال: "لا ضَرَر ولا ضِرارَ"."
(کتاب الصلح، باب: لاضررولاضرار، ج:11، ص:542، الرقم:11495، ط: مركز هجر للبحوث والدراسات العربية والإسلامية)
الجامع الصغیر میں ہے:
"فلا شيء عليه لأنها من المؤذيات والخبائث فلا يستوجب الأمان كالفارة والوزغة بحل للمحرم قتلهما.'
(باب الکراھیة فی اللبس، ص:476، ط:عالم الكتب - بيروت)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"وقال محمد - رحمه الله تعالى - ولا بأس بالتداوي بالعظم إذا كان عظم شاة أو بقرة أو بعير أو فرس أو غيره من الدواب إلا عظم الخنزير والآدمي فإنه يكره التداوي بهما فقد جوز التداوي بعظم ما سوى الخنزير والآدمي من الحيوانات مطلقا من غير فصل بينما إذا كان الحيوان ذكيا أو ميتا وبينما إذا كان العظم رطبا أو يابسا وما ذكر من الجواب يجري على إطلاقه إذا كان الحيوان ذكيا لأن عظمه طاهر رطبا كان أو يابسا يجوز الانتفاع به جميع أنواع الانتفاعات رطبا كان أو يابسا فيجوز التداوي به على كل حال وأما إذا كان الحيوان ميتا فإنما يجوز الانتفاع بعظمه إذا كان يابسا ولا يجوز الانتفاع إذا كان رطبا وأما عظم الكلب فيجوز التداوي به هكذا."
(کتاب الکراھیة، الباب الثامن عشر فی التداوی، ج:5، ص:354، ط: المطبعة الکبریٰ الأمیریه)
بدائع الصنائع میں ہے:
"النوع الذي لا يباح ولا يرخص بالإكراه أصلا فهو قتل المسلم بغير حق سواء كان الإكراه ناقصا أو تاما؛ لأن قتل المسلم بغير حق لا يحتمل الإباحة بحال قال الله تبارك وتعالى:وَلا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ." (الأنعام: 151)، وكذا قطع عضو من أعضائه، والضرب المهلك."
(کتاب الإکراہ، فصل فی بیان ما یقع علیه الإکراہ، ج:7، ص:177، ط: المطبعة جمالیة بمصر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"خاف الموت جوعا ، وإن قال له آخر اقطع يدي وكلها لا يحل"
(فتاویٰ شامی، کتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:338، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)
الفقہ الاسلامی وأدلتہ میں ہے:
"لا بد في إجراء الأبحاث الطبية من موافقة الشخص التام الأهلية بصورة خالية من شائبة الإكراه (كالمساجين) أو الإغراء المادي (كالمساكين). ويجب أن لا يترتب على إجراء تلك الأبحاث ضرر.
ولا يجوز إجراء الأبحاث الطبية على عديمي الأهلية أو ناقصيها ولو بموافقة الأولياء."
(العلاج الطبی، إذن المریض، ج:7، ص:5206، ط: دار الفكر -دمشق)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606100081
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن