بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض کی عادت سات 7 دن پورے ہونے سے پہلے خون بند ہوجانے کے بعد غسل کر کے ہمبستری کرنے کا حکم


سوال

میرے حیض کی مدت عموماً 6دن ہوتی ہے، کبھی 7دن بھی ہو جاتے ہیں تو 6دن بعد غسل کر کے ہم بستری کرنے کے بعد خون آنے کی صورت میں کیا حکم ہے؟ راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ   کی ماہواری کی  عادت زیادہ سے زیادہ سات دن تک کی تھی اور صرف چھ دن میں  خون رُک گیا ،تو اس صورت میں شوہر کے لیے عادت کے ایّام  پورے ہونے سے پہلے ہم بستری کرنا جائز نہیں تھا؛کیوں کہ ایامِ عادت تک خون کے آجانے کا غالب گمان رہتا ہے، اگر میاں بیوی دونوں کی رضامندی سے اس گناہ کا راتکاب ہوا ہے تو دونوں گناہ گار ہوئے، دونوں استغفارکریں، اور بہتر یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ صدقہ کریں؛ تاکہ نیکی سے گناہ دھل جائے، اگر استطاعت ہو تو ایک دینار (4.374  گرام سونے کا سکہ) یا آدھا دینار (یا اس کی قیمت) صدقہ کریں۔ 

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم في الذي ‌يأتي ‌امرأته ‌وهي ‌حائض، قال: يتصدق بدينار أو بنصف دينار ."

(كتاب الطهارة، باب كفارة من أتى حائضاً: ج:1، ص:120، ط:دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ: "حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جوشخص بھی حائضہ عورت سے ہم بستری کرلے وہ ایک یا آدھا دینار صدقہ کرے ۔"

المبسوط للسرخسیؒ میں ہے:

"فأما جماع الحائض في الفرج حرام بالنص يكفر مستحله ويفسق مباشره لقوله تعالى{فاعتزلوا النساء في المحيض} ، وفي قوله تعالى:{ولا تقربوهن حتى يطهرن}، دليل على أن الحرمة تمتد إلى الطهر وقال صلى الله عليه وسلم: «من أتى امرأة في غير مأتاها أو أتاها في حالة الحيض أو أتى كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل الله على محمد صلى الله عليه وسلم» ولكن لا يلزمه بالوطء سوى التوبة والاستغفار ومن العلماء من يقول: إن وطئها في أول الحيض فعليه أن يتصدق بدينار وإن وطئها في آخر الحيض فعليه أن يتصدق بنصف دينار وروى فيه حديثا شاذا ولكن الكفارة لا تثبت بمثله."

(كتاب الاستحسان، باب جماع الحائض في الفرج، ج:10، س:159، ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

" (و) هو كبيرة لو عامدا مختارا عالما بالحرمة لا جاهلا أو مكرها أو ناسيا فتلزمه التوبة ويندب تصدقه بدينار أو نصفه. ومصرفه كزكاة وهل على المرأة تصدق؟ قال في الضياء: الظاهر لا.

وفي الرد:(قوله: ويندب إلخ) لما رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي عن ابن عباس مرفوعا «في الذي يأتي امرأته وهي حائض، قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار» ثم قيل إن كان الوطء في أول الحيض فبدينار أو آخره فبنصفه، وقيل بدينار لو الدم أسود وبنصفه لو أصفر. قال في البحر: ويدل له ما رواه أبو داود والحاكم وصححه «إذا واقع الرجل أهله وهي حائض، إن كان دما أحمر فليتصدق بدينار، وإن كان أصفر فليتصدق بنصف دينار» . اهـ (قوله قال في الضياء إلخ) أي الضياء المعنوي شرح مقدمة الغزنوي، وأصل البحث للحدادي في السراج، ويؤيده ظاهر الأحاديث. وظاهرها أيضا أنه لا فرق بين كونه جاهلا بحيضها أو لا."

(كتاب الطهارة، باب الحيض،ج:1، ص:198،ط:سعيد)

وفیه أیضاً:

"(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لاكثره) بلا غسل وجوباً بل ندباً. (وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لاقله) فإن لدون عادتها لم يحل، أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب بحر، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطا، وإن لعادتها، فإن كتابيةً حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه(أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب".

 (باب الحيض: ص: 1، ص: 294،ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144407100714

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں