بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض کے بعد پاکی کے پندرہ دن سے پہلے دوبارہ خون آنا


سوال

ایک عورت کے حیض آنے کی عادت دس دن کی ہے ،لیکن حیض کے دس دن مکمل ہو جانے کے بعد اگلے 15 دن گزرنے سے پہلے اسے دوبارہ خون آجاتا ہے  جو دس دن تک چلتا ہے اور پھر دوبارہ اگلے 15 دن مکمل ہونے سے پہلے خون آ جاتا ہے اور  اسی طرح سلسلہ  چلتا رہتا ہے ۔

ایسی صورت میں اس عورت کے لیے شرعاً کیا  حکم  ہوگا؟

جواب

  واضح رہے کہ شرعاً دو حیضوں کے درمیان پندرہ دن کا فاصلہ ہونا  ضروری ہے،پندرہ دن سے پہلے آنے والا خون شرعاً استحاضہ شمار ہوگا،اور  عورت کی عادت کے مطابق ہی حیض اور طہر کے ایام مقرر کیے جائیں گے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ خاتون کے حیض  کی عادت چوں کہ دس دن کی ہے اس لیے دس دن  مذکورہ خاتون کو جو خون آرہا ہے وہ  حیض  شمار ہوگا اور  دسویں دن حیض سے پاک ہوکر مذکورہ خاتون کوپندرہویں   دن سے پہلے جو خون آرہاہے  وہ استحاضہ کا خون شمار ہوگا اور استحاضہ کے دنوں کا حکم یہ ہے کہ اس میں نماز ،روزہ ،تلاوت ،قربت غرض یہ کہ پاکی والے تمام اعمال کیے جائیں گے، اور  عادت کے مطابق جب تک پاکی کے 15دن مکمل نہ ہوجائیں اس وقت تک مذکورہ خاتون پاک شمار ہوگی،اور  جب   مذکورہ خاتون کے پاکی کے دن عادت کے مطابق  مکمل ہوجائیں تو  حیض کے دس ایام  اس پاکی کے بعد سے شمارکیے جائیں گے۔

  نیز استحاضہ کے ایام  میں  اگر  مذکورہ خاتون کو خون اتنے وقفے سے آتاہو کہ کپڑے پاک کرکے باوضو ہوکر   وقتی فرض نماز  ادا کرسکتی ہو تو ایسی صورت میں پاکی کا مکمل اہتمام کرتے ہوئے نماز ادا کرنی ہوگی ، اور اگر استحاضہ  کا خون مسلسل جاری  ہو   اور اتنا وقت بھی نہ مل رہا ہو کہ پاک صاف ہوکر وقتی فرض نماز ادا کرسکے ،تو ایسی صورت میں  ہرنماز کے وقت میں نیا وضو کرناہوگا، پھر اس وضو سے  اگلی نماز کے وقت تک جتنے فرائض و نوافل  چاہےپڑھ سکتی ہے، نیز روزے  بھی رکھ سکتی ہے اور قرآنِ کریم کی تلاوت بھی کرسکتی ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"فالأصل عند أبي يوسف وهو قول أبي حنيفة الآخر على ما في المبسوط أن الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان أقل من خمسة عشر يوما لا يصير فاصلا بل يجعل كالدم المتوالي؛ لأنه لا يصلح للفصل بين الحيضتين فلا يصلح للفصل بين الدمين."

( كتاب الطهارة،باب الحيض،216/1،ط:دار الکتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"ودم الإستحاضة حکمه کرعاف دائم وقتًا کاملاً لایمنع صومًا وصلاةً ولو نفلاً وجماعَا؛ لحدیث: توضئي وصلي وإن قطر الدم علی الحصیر".

(کتاب الطهارۃ،باب الحیض،298/1،ط: سعید )

وفیہ ایضاً:

"( وصاحب عذر من به سلس ) بول لايمكنه إمساكه ( أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة ) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع و لو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الإنقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الإبتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الإنقطاع) تمام الوقت (حقيقةً)؛ لأنه الإنقطاع الكامل. (وحكمه: الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - ﴿ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ ﴾ [الإسراء: 78] - (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً)، فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل)".

(کتاب الطهارة، مطلب في أحکام المعذور، 1/ 305، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں