بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حائضہ کا عید کے دن مسجد میں آنے کا حکم


سوال

عورت کو حالت حیض میں بھی آپ صلی للہ علیہ وسلم نے عید کے دن مسجد آنے کا حکم دیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حیض کی حالت میں عورت کے لیے مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ میں آنے کی اجازت دی تھی، اور عید گاہ مسجدِ نبوی سے باہر فاصلے پر تھی، عید گاہ   کاحکم پاکی ناپاکی کے لحاظ سے  مسجد کےحکم سےمختلف ہے،عید گاہ میں حالتِ  حیض میں داخل ہونا ممنوع نہیں۔

باقی جس حدىث ميں اس بات كا ذكر ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں  كو عيد گاه ميں آنے کا حكم دیا تو  اس کو جواب یہ ہے کہ اس زمانہ میں خیر غالب تھی،فتنہ کا اندیشہ نہیں تھا، اور شریعت کے احکام نازل ہورہے تھے، اور  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے صحابیہ بنتی تھی،  اس لیے عورتوں کو مسجد اور عیدگاہ وغیرہ میں آنے کی اجازت تھی،بعد میں حالات بدل گئے،فتنہ فساد  کا اندیشہ بڑھ گیا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے  خواتین کے مسجد میں آنے کی ممانعت کردی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ حیات ہوتے تو  خواتین کو مسجد میں آنے سے خود منع فرمادیتے؛ اس لیے اب عورتوں کا  عید کی نماز کے لیے مسجد جانا یا عید گاہ جانا مکروہ تحریمی ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أم عطية قالت:أمرنا أن نخرج الحيض يوم العيدين، وذوات الخدور، فيشهدان جماعة المسلمين ودعوتهم، ويعتزل الحيض عن مصلاهن، قالت امرأة: يا رسول الله، إحدانا ليس لها جلباب؟ قال: لتلبسها صاحبتها من جلبابها."

کتاب الصلاۃ، باب وجوب الصلاة في الثياب، رقم الحدیث:344، ج:1، ص:139، ط:دار ابن كثير)

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"وأجابوا عن هذا الحديث بأن المفسدة في ذلك الزمن كانت مأمونة بخلاف اليوم، وقد صح عن عائشة، رضي الله تعالى عنها، أنها قالت: لو رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء بعده لمنعهن المساجد كما منعت نساء بني إسرائيل."

‌‌(کتاب الحیض، باب شهود الحائض العيدين ودعوة المسلمين ويعتزلن المصلى، ج:3، ص:302، ط:دار إحياء التراث العربي)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: ودخول مسجد) أي ‌يمنع ‌الحيض ‌دخول المسجد وكذا الجبانة وخرج بالمسجد غيره كمصلى العيد والجنائز والمدرسة والرباط فلا يمنعان من دخولها."

(کتاب الطھارۃ، باب الحیض، ما يمنعه الحيض، ج: 1، ص: 205، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقاً) ولو عجوزاً ليلاً (على المذهب) المفتى به؛ لفساد الزمان.

(قوله: ولو عجوزاً ليلاً) بيان للإطلاق: أي شابةً أو عجوزاً نهاراً أو ليلاً (قوله: على المذهب المفتى به) أي مذهب المتأخرين. قال في البحر: وقد يقال: هذه الفتوى التي اعتمدها المتأخرون مخالفة لمذهب الإمام وصاحبيه، فإنهم نقلوا أن الشابة تمنع مطلقاً اتفاقاً. وأما العجوز فلها حضور الجماعة عند الإمام إلا في الظهر والعصر والجمعة أي وعندهما مطلقاً، فالإفتاء بمنع العجائز في الكل مخالف للكل، فالاعتماد على مذهب الإمام. اهـ. قال في النهر: وفيه نظر، بل هو مأخوذ من قول الإمام وذلك أنه إنما منعها لقيام الحامل وهو فرط الشهوة بناء على أن الفسقة لاينتشرون في المغرب؛ لأنهم بالطعام مشغولون، وفي الفجر والعشاء نائمون؛ فإذا فرض انتشارهم في هذه الأوقات لغلبة فسقهم كما في زماننا بل تحريهم إياها كان المنع فيها أظهر من الظهر. اهـ. قلت: ولايخفى ما فيه من التورية اللطيفة. وقال الشيخ إسماعيل: وهو كلام حسن إلى الغاية".

(کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1،ص:566، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512100174

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں