بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حائضہ کے سفر کرنے کے متعلق چند سوالات


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں :

۱) کہ ایک عورت حیض کی حالت میں سفر کر کے (مثلا کراچی سے لاہور) چلی گئی اور وہاں پندرہ دن سے کم قیام تھا تو یہ عورت وہاں قصر کرے گی یا اتمام؟

۲) ایک عورت پاکی کی حالت میں سفر کر کے (مثلا کراچی سے لاہور)  دو تین دن کے لیے چلی گئی اور اسے وہاں جا کر حیض آگیا پھر اسے اسی حالت میں دوسرے شہر کا سفر کرنا پڑگیا وہاں مقیم یا مسافر ہونے کی صورت میں اتمام کرے گی یا قصر؟

۳) حیض کی حالت میں سفر کرنے سے سفر قرار غیر معتبر ہوتا یا سفر فرار یا دونوں ؟

۴) سفر میں عورت مقیم یا مسافر ہونے میں شوہر کے تابع  ہوتی ہے، تو کیا سفر میں شوہر ساتھ ہو تب بھی ماہواری کی وجہ سے مسافر ہونے یا نہ ہونے میں فرق پڑے گا؟

جواب

جواب سے قبل تمہید کے طور پر چند باتیں ذکر کی جاتی ہیں:

الف: فقہاء کرام سفر کے احکام نافذ ہونے  کے لیے  تین شرائط ذکر کی ہیں:

۱) سفر کی مدت  یعنی ۴۸ میل۔

۲) مدت سفر کی نیت۔

  ۳) شہر کی آبادی سے نکلنا۔

پھر شرط نمبر دو کے معتبر ہونے کے لیے فقہاء کرام نے مزید اور  دو شرائط ذکر کی ہیں :

۱) نیت کرنے والے کی نیت شرعا معتبر ہو  یعنی  نیت کا اہل ہو  ، نا بالغ بچہ اور حائضہ عورت کی نیت معتبر نہیں ہے

۲) اپنے فیصلہ میں مستقل ہو کسی کا تابع نہ ہو ۔

ب: جب کہ  مسافر کے مقیم بننے کے لیے فقہاء نے ۶شرائط ذکر کی ہیں:

۱) نیت کرنا 

۲) ۱۵ دن یا اس سے زائد کی مدت کا ہونا

۳) رائے میں مستقل ہونا

۴) ایک مقام پر اقامت کرنا

۵) مقام کا اقامت کے لیے مناسب ہونا

  ۶) سفر کا ترک کرنا۔

اب نمبر وار سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:

۱)  حائضہ عورت چونکہ نیتِ سفر کی اہل نہیں ہے تو حیض کی حالت میں کیے ہوئے تین دن یا اس سے زائد ایام  کے سفر کا شرعا اعتبار نہیں ہوگا اور وہ  مسافر شمار نہیں ہوگی البتہ اگر سفر کے دوران پاک ہوگئی اور پاک ہونے کے بعد تین دن یا اس سے زائد ایام کا مزید  سفر باقی تھا تو پھر وہ عورت مسافر بنے گی، لہذا صورت مسئولہ میں  جب مذکورہ عورت نے حیض کی حالت میں مسافت سفر (کراچی سے لاہور) طے کی ہے تو یہ مسافت شرعا معتبر نہیں ہے اور پندرہ دن سے کم قیام کے باوجود مذکورہ عورت اتمام کرے گی، قصر نہیں کرے گی۔

۲)  اقامت کی نیت شرعا معتبر ہونے کے لیے فقہاء نے اہلیت کو شرط نہیں قرار دیا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں جب عورت پاکی کی حالت میں دو سے تین  دن کے لئے قیام کی نیت سے مسافت سفر طے کر لے گی (مثلاکراچی سے لاہور کی مسافت) تو وہ شرعا مسافر بن جائے گی، اور راستہ میں اور جس مقام پر دو سے تین دن رکی ہے وہاں قصر نماز ادا کرے گی۔ پھر جب اسی مقام پر حائضہ ہوگئی اور اب وہاں سے مزید سفر  کی نیت سے سفر کرے گی  تو باوجود اس کے کہ اب وہ سفر کی نیت کی اہل نہیں ہے شرعا مسافر ہی شمار ہوگی ؛کیونکہ پاکی میں کیے ہوئے سفر کا حکم باقی رہے گا حیض کی وجہ سے وہ حکم تبدیل نہیں ہوگا۔ اب نئے مقام پر اگر پندرہ دن سے کم کی نیت سے رہے گی تو مسافر رہے گی اور پاک ہونے کے بعد قصر نماز ادا کرے گی اور اگر نئے مقام پر اقامت کی نیت کرے گی تو پھر اقامت کی نیت شرعا معتبر ہوگی اور مقیم شمار ہوگی اور پاکی حاصل ہونے کے بعد مکمل نماز ادا کرے گی کیونکہ   اقامت کی نیت شرعا معتبر ہونے کے لیے فقہاء  کرام نے اہلیت کو شرط نہیں قرار دیا ہے ۔

۳) دونوں سفر غیر معتبر ہیں کیونکہ سفر کے احکام کی بناء ۴۸ میل کے سفر کی نیت سے شہر کی آبادی سے نکلنے پر  ہے اور اس نیت کے لیے اہلیت ضروری ہے، جب عورت حائضہ ہونے کی وجہ سے نیت کی اہل ہی نہیں تو پھر سفر فرار اور قرار دونوں میں مسافر شمار نہیں ہوگی، ہاں اگر راستہ میں پاک ہوگئی اور جس مقام پر پاک ہوئی اس مقام اور جہاں جانے کی نیت ہے ان دونوں کے درمیان ۴۸ میل  یا اس سے زیادہ کا فاصلہ ہو تو پھر مذکورہ عورت سفر فرار اور قرار (بشرطیکہ ۱۵ دن سے کم قیام کی نیت ہو)  دونوں میں مسافر شمار ہوگی ۔   

۴)سفر کی نیت  معتبر ہونے کی تین شرائط  (تمہید میں مذکور ہیں) پائے جانے کی صورت میں سفر کی نیت معتبر ہوتی ہے اگر کوئی ایک شرط بھی نہیں پائی جائے گی تو سفر کی نیت معتبر نہیں ہوگی؛  لہذا  اگر حائضہ عورت  اپنے شوہر کے ساتھ سفر کرے تب بھی وہ مسافر نہیں شمار ہوگی کیونکہ  نیت کے اہل ہونے کی شرط نہیں پائی جارہی  گو کہ دوسری شرط (یعنی تابع کے حق میں متبوع کی نیت کا معتبر ہونا ) پائی جارہی ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"طهرت الحائض وبقي لمقصدها يومان تتم في الصحيح كصبي بلغ بخلاف كافر أسلم.

(قوله تتم في الصحيح) كذا في الظهيرية. قال ط وكأنه لسقوط الصلاة عنها فيما مضى لم يعتبر حكم السفر فيه فلما تأهلت للأداء اعتبر من وقته.

(قوله كصبي بلغ) أي في أثناء الطريق وقد بقي لمقصده أقل من ثلاثة أيام فإنه يتم ولا يعتبر ما مضى لعدم تكليفه فيه ط (قوله بخلاف كافر أسلم) أي فإنه يقصر. قال في الدرر لأن نيته معتبرة فكان مسافرا من الأول بخلاف الصبي فإنه من هذا الوقت يكون مسافرا، وقيل يتمان، وقيل يقصران. اهـ. والمختار الأول كما في البحر وغيره عن الخلاصة.قال في الشرنبلالية: ولا يخفى أن الحائض لا تنزل عن رتبة الذي أسلم فكان حقها القصر مثله. اهـ.وأجاب في نهج النجاة بأن مانعها سماوي بخلافه اهـ أي وإن كان كل منهما من أهل النية بخلاف الصبي، لكن منعها من الصلاة ما ليس بصنعها فلغت نيتها من الأول، بخلاف الكافر فإنه قادر على إزالة المانع من الابتداء فصحت نيته."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج نمبر ۲ ص نمبر ۱۳۴، ایچ ایم سعید) 

المحيط البرهاني  میں ہے:

"وإذا أسلم الكافر في سفره وبينه وبين المقصد أقل من ثلاثة أيام أو إذا أدرك الصبي (97أ1) في سفره وبينه وبين المقصد أقل من ثلاثة أيام، فقد اختلف المشايخ فيه بعضهم قالوا: الذي أسلم يصلي ركعتين فالذي بلغ يصلي أربعاً وقال بعضهم: يصليان ركعتين.

وفي «متفرقات الفقيه أبي جعفر» : فإنهما يصليان أربعاً؛ لأنهما لم يكونا مخاطبين؛لا يقصران الصلاة، وأما الحائض إذا طهرت في بعض الطريق قصرت الصلاة؛ لأنها مخاطبة."

(کتاب الصلاۃ باب صلاۃ المسافر ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۰، دار الکتب العلمیۃ)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:

"قوله: "في محل تصح إقامة فيه" شروط إتمام الصلاة ستة النية والمدة واستقلال الرأي واتحاد الموضع وصلاحيته وترك السير."

(کتاب الصلاۃ باب صلاۃ المسافر ص نمبر ۴۲۵، دار الکتب العلمیۃ)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:

"ويشترط لصحة نية السفر ثلاثة أشياء: الاستقلال بالحكم و" الثاني "البلوغ و" الثالث "عدم نقصان مدة السفر عن ثلاثة أيام."

(کتاب الصلاۃ باب صلاۃ المسافر ص نمبر ۴۲۴، دار الکتب العلمیۃ)

«درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"(قصر الفرض الرباعي)..... (حتى يدخل مقامه) غاية لقوله ويرخص (أو ينوي إقامة نصف شهر أو أكثر ببلد أو قرية).

«قوله أو ينوي إقامة نصف شهر) قال في البحر عن المجتبى إنما تؤثر النية بخمس شرائط ترك السير وصلاحية الموضع واتحاده والمدة والاستقلال بالرأي اهـ قلت وهي مستفادة من كلام المصنف."

(کتاب الصلاۃ باب صلاۃ المسافر ج نمبر ۱ ص نمبر ۱۳۳،دار احیاء کتب العربیۃ)

«درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"(هو من جاوز بيوت مقامه)...... (قاصدا قطع مسافة) فمن جاوز ولم يقصد أو قصد ولم يجاوز لم يكن مسافرا (تقطع) أي من شأن تلك المسافة أن تقطع (بسير وسط)

(قوله قاصدا قطع مسافة) أقول أي وهو ممن يعتبر قصده حتى لو خرج صبي وكافر قاصدين مسيرة ثلاثة أيام ففي أثنائها بلغ الصبي وأسلم الكافر يقصر الذي أسلم فيما بقي ويتم الذي بلغ لعدم صحة القصد والنية من الصبي حيث أنشأ السفر بخلاف النصراني والباقي بعد صحة النية أقل من ثلاثة أيام كما في الفتح وهو اختيار الصدر الشهيد حسام الدين لكن قال في مختصر الظهيرية الحائض إذا طهرت وبينها وبين المقصد أقل من ثلاثة أيام تصلي أربعا هو الصحيح اهـ قلت ولا يخفى أنها لا تنزل عن رتبة الذي أسلم فكان حقها القصر مثله اهـ.

وهذا أي كونه ممن يعتبر قصده أحد شروط ثلاثة لصحة النية ذكرها المقدسي عن الزاهدي وثانيها الاستقلال بالحكم فلا تعتبر نية التابع وثالثها أن ينوي سفرا صحيحا وهو ثلاثة أيام فما فوقها وذلك معلوم من كلام المصنف."

(کتاب الصلاۃ باب صلاۃ المسافر ج نمبر ۱ ص نمبر ۱۳۲،دار احیاء کتب العربیۃ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يصير به المقيم مسافرا: فالذي يصير المقيم به مسافرا نية مدة السفر والخروج من عمران المصر فلا بد من اعتبار ثلاثة أشياء: أحدها: مدة السفر...والثاني: نية مدة السفر لأن السير قد يكون سفرا وقد لا يكون؛ لأن الإنسان قد يخرج من مصره إلى موضع لإصلاح الضيعة ثم تبدو له حاجة أخرى إلى المجاوزة عنه إلى موضع آخر ليس بينهما مدة سفر ثم وثم إلى أن يقطع مسافة بعيدة أكثر من مدة السفر لا لقصد السفر فلا بد من النية للتمييز، والمعتبر في النية هو نية الأصل دون التابع حتى يصير العبد مسافرا بنية مولاه، والزوجة بنية الزوج، وكل من لزمه طاعة غيره كالسلطان وأمير الجيش؛ لأن حكم التبع حكم الأصل.....والثالث: الخروج من عمران المصر فلا يصير مسافرا بمجرد نية السفر ما لم يخرج من عمران المصر."

(کتاب الصلاۃ ، فصل ما یصیر یصیر بہ المقیم مسافرا ج نمبر ۱ ص نمبر ۹۳، دار الکتب العلمیہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يصير المسافر به مقيما: فالمسافر يصير مقيما بوجود الإقامة، والإقامة تثبت بأربعة أشياء: أحدها: صريح نية الإقامة وهو أن ينوي الإقامة خمسة عشر يوما في مكان واحد صالح للإقامة فلا بد من أربعة أشياء: نية الإقامة ونية مدة الإقامة، واتحاد المكان، وصلاحيته للإقامة...(والثاني) وجود الإقامة بطريق التبعية: وهو أن يصير الأصل مقيما فيصير التبع أيضا مقيما بإقامة الأصل، كالعبد يصير مقيما بإقامة مولاه، والمرأة بإقامة زوجها، والجيش بإقامة الأمير ونحو ذلك؛ لأن الحكم في التبع ثبت بعلة الأصل ولا تراعى له علة على حدة لما فيه من جعل التبع أصلا وأنه قلب الحقيقة....(وأما) الثالث: فهو الدخول في الوطن......(وأما) الرابع فهو العزم على العود للوطن: وهو أن الرجل إذا خرج من مصره بنية السفر ثم عزم على الرجوع إلى وطنه، وليس بين هذا الموضع الذي بلغ وبين مصره مسيرة سفر يصير مقيما حين عزم عليه؛ لأن العزم على العود إلى مصره قصد ترك السفر بمنزلة نية الإقامة فصح، وإن كان بينه وبين مصره مدة سفر لا يصير مقيما؛ لأنه بالعزم على العود قصد ترك السفر إلى جهة.وقصد السفر إلى جهة، فلم يكمل العزم على العود إلى السفر لوقوع التعارض، فبقي مسافرا كما كان."

(کتاب الصلاۃ ، فصل ما یصیر یصیر بہ المسافر مقیما ج نمبر ۱ ص نمبر ۹۷، دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں