بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حج بدل کی نیت اور طریقہ


سوال

میں اس سال اپنے مرحوم والد صاحب کی طرف سے حج بدل کرنا چاہتی ہوں، برائے مہربانی مجھے حج بدل کی شرائط، اور طریقہ، مسئلہ نیت وغیرہ کے بارے میں بتا دیجیے۔

جواب

 اگر آپ کے مرحوم والدکے ذمہ حج فرض نہ تھا یا حج تو فرض تھا مگر وصیت نہیں کی، اور آپ اپنی طرف سے حج بدل کرنا چاہتی ہیں تو آپ حسب مرضی حج افراد یا قران یا تمتع میں سے جو حج کرناچاہیں کر سکتی ہیں، مگر عام طور پر حج تمتع کیا جاتا ہے، اس میں آسانی بھی ہے ، اس صورت میں  عمرہ اور اس کے بعد حج دونوں کا احرام والد صاحب مرحوم کے نام سے ہوگا، بس اتنی نیت کافی ہے کہ میں والد مرحوم کی طرف سے عمرہ کر رہی ہوں اور حج میں  حج کررہی ہوں احرام باندھنے کے بعد حج یا عمرہ کے ہر ہر فعل یا رکن پر مستقل نیت کی ضرورت نہیں، والد مرحوم کی طرف  سے احرام باندھنے کے بعد حج و عمرہ کے بقیہ افعال اسی طرح ادا کریں جس طرح ایک عام حج یا عمرہ کرنے والا ادا کرتا ہے۔

ملاحظہ:1) اگر سائلہ کے والد نے حج بدل کی وصیت کی ہو اور والدکے متروکہ مال سے حج بدل کے لیے جانا چاہتی ہو تو اس کے  لیے شرط یہ ہے کہ والد کے ترکہ میں سے صرف ثلث مال لینے کی اجازت ہوگی ایک تہائی سے زائد مال کے لیے دیگر تمام عاقل بالغ  ورثاء کی رضامندی ضروری ہوگی۔

2)نیز حج بدل کرنے والے کے  لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ حج بدل کرنے والے نے پہلےحج کیا ہوا ہو۔

باقی پورا  طریقہ کار حج کے تربیتی پرگرام میں شرکت کر کے یا اس  سے متعلقہ کتب پڑھ کر حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

"من عليه الحج إذا مات قبل أدائه فإن مات عن غير وصية يأثم بلا خلاف، وإن أحب الوارث أن يحج عنه حج وأرجو أن يجزئه ذلك إن شاء الله تعالى، كذا ذكر أبو حنيفة - رحمه الله تعالى."

(كتاب المناسك،الباب الرابع عشر،ج:1،ص:257،ط:دار الفكر بيروت) 

وفيه ايضاً:

"(ومنها) الأمر بالحج فلا يجوز حج الغير عنه بغير أمره إلا الوارث يحج عن مورثه بغير أمره فإنه يجزيه."

(كتاب المناسك،الباب الخامس عشر،ج:1،ص:257،ط:دار الفكر بيروت)

وفيه ايضاً:

"وإذا حج عنه يجوز عندنا باستجماع شرائط الجواز وهي نية الحج وأن يكون الحج بمال الموصي أو بأكثره لا تطوعا وأن يكون راكبا لا ماشيا ويحج عنه من ثلث ماله سواء قيد الوصية بالثلث بأن أوصى أن يحج عنه بثلث ماله أو أطلق بأن أوصى بأن يحج عنه هكذا في البدائع فإن لم يبين مكانا يحج عنه من وطنه عند علمائنا، وهذا إذا كان ثلث ماله يكفي للحج من وطنه فأما إذا كان لا يكفي لذلك فإنه يحج عنه من حيث يمكن الإحجاج عنه بثلث ماله، كذا في المحيط."

(كتاب المناسك،الباب الخامس عشر،ج:1،ص:258،257،ط:دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في البحر: والحق أنها تنزيهية على الآمر لقولهم والأفضل إلخ تحريمية على الصرورة المأمور الذي اجتمعت فيه شروط الحج ولم يحج عن نفسه لأنه أثم بالتأخير اهـ. قلت: وهذا لا ينافي كلام الفتح لأنه في المأمور، ويحمل كلام الشارح على الآمر، فيوافق ما في البحر من أن الكراهة في حقه تنزيهية وإن كانت في حق المأمور تحريمية."

 (‌‌‌‌كتاب الحج،باب الحج عن الغير،مطلب في الفرق بين العبادة والقربة والطاعة،ج:2،ص: 603،ط:دار الفكر - بيروت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اگر بغیر وصیت کوئی وارث اپنے حصے سے حج ادا کرادے، یا اپنی طرف سے اپنے مال سے ادا کرادے تو امید ہے کہ وہ میت مواخذہ سے بری ہوجائے.  "

(کتاب الحج،باب الحج عن الغیر،ج:10،ص:421،ط: دار الافتاء جامعہ فاروقیہ)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

" اگر آپ کے مرحوم والدین کے ذمہ حج فرض نہ تھا یا حج تو فرض تھا مگر وصیت نہیں کی، اور آپ اپنی طرف سے حج بدل کرنا چاہتے ہیں تو آپ حسب مرضی حج افراد یا قران یا تمتع میں سے جونسا احرام باندھیں اختیار ہے، مگر حج افراد کا احرام باندھ  کر حج کرنا اولی ہے." 

(ج:8،ص:129، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں