مسئلہ یہ ہے کہ شہر ممبئی سے ہر سال حاجی روانہ ہوتے ہیں ، تو ان حاجیوں کی خدمت کے لیے یا ان کو حج کی ترتیب سکھانے کے لیے انڈیا بھر سے لوگ اپنی سعادت سمجھتے ہوئے ممبئی جاتے ہیں ، لیکن چند سالوں سے حج کمیٹی والوں نے یہ اصول بنا دیا ہے کہ: حاجیوں کی خدمت کے لیے یا حج کی ترتیب سکھانے کے لیے وہی آسکے گا جس کے تبلیغ میں چار مہینے لگے ہوں گے، دریافت طلب امر یہ کہ، کیا حاجیوں کی خدمت کے لیے یہ اصول صحیح ہے کہ چار مہینے لگایا ہوا شخص ہو؟
صورتِ مسئولہ میں حج کمیٹی والوں کا یہ ضابطہ بنانا درست نہیں کہ"حاجیوں کی خدمت کے لیے یا حج کی ترتیب سکھانے کے لیے وہی آسکے گا جس کے تبلیغ میں چار مہینے لگے ہوں گے" ؛ کیوں کہ حاجیوں کے لیے خدمت کرنے والوں یا معلمین کے بندوبست کا بنیادی مقصد انہیں راحت پہنچانے اور ان کےحج کی درستگی کی بھر پور کوشش کرنا ہے،اس لیے اگر کوئی شخص خدمت کے لیے جانا چاہتاہے اور وہ خدمت پر پورا اترتا ہو وہ خدمت سے بخوبی واقف ہے یا کوئی مستند عالم دین یا مفتی ان کی تعلیم وتربیت کے لیے جاناچاہتاہےتو اسے لے جاسکتے ہیں۔
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:
"ويجب أن يتوفر في المعاونين والمساعدين الصفات الشرعية التي يجب مراعاتها في اختيار الأشخاص ۔۔۔مع البحث عن أحسن وأفضل شخص تتوفر فيه الشروط اللازمة، وتتحقق فيه العدالة، وتصان به المصلحة، قال تعالى: {إن خير من استأجرت القوي الأمين} ، فهذه الآية تتضمن اشتراط الأمانة والقوة أي القدرة على القيام بالعمل الذي يسند إليه من أعمال الدولة."
(ج:43، ص:131، ط:دار السلاسل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406101312
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن