بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حج کے بنیادی ارکان


سوال

حج کےکتنے  ارکان ہیں ؟

جواب

حج کے تین بنیادی ارکان (فرائض)  ہیں، جن کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا،ان میں سے پہلا : احرام ہے   یعنی دل سے حج کی نیت کرکے مکمل  تلبیہ پڑھنا،یہ ابتداءً  شرط ہے  اور انتہاءًاس كا حكم رکن کا ہی ہو جاتا ہے، اور  احرام میں داخل ہوجانے کے بعد حج کے ارکان دو ہیں:

ایک وقوف عرفہ: نویں ذی الحجہ کو زوالِ آفتاب کے بعد سے لے کر دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق کے درمیان میدانِ عرفات میں ٹھہرنا، چاہے کچھ ہی دیر کے لیے ٹھہرے۔ (یہ حج کا رکنِ اعظم ہے، اگر کسی نے وقوفِ عرفہ نہ کیا، اس کا حج ہی نہیں ہوگا، چاہے دم ہی  کیوں نہ دے دے۔ البتہ اس کا وجوبی وقت نویں ذوالحجہ کے زوالِ آفتاب سے لے کر غروب سے پہلے پہلے ہے، لہٰذا بغیر عذر کے اس وقت کو چھوڑ کر مغرب کے بعد سے دسویں ذوالحجہ کی صبح صادق کے درمیان وقوف نہ کیا جائے، اگر بلا عذر ایسا کیا تو مکروہ ہوگا۔) 

دوسرا طوافِ زیارت: جو کہ وقوفِ عرفہ کے بعد کیا جاتا ہے، (جب تک حاجی طوافِ زیارت نہ کرلے اس کا حج مکمل نہیں ہوتا اور  بیوی اس کے لیے حلال نہیں ہوتی، اس کا وجوبی وقت دسویں ذی الحجہ کے سورج طلوع ہونے سے لے کر بارہویں ذی الحجہ کا سورج غروب ہونے تک ہے، وقتِ مقررہ  کے دوران طواف نہ کرنے کی صورت میں دم لازم ہوتا ہے۔)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"أحرم الرجل إذا دخل في حرمة لا تنتهك من ذمة وغيرها ، وأحرم للحج لأنه يحرم عليه ما يحل لغيره من الصيد والنساء ونحو ذلك ، وأحرم الرجل إذا دخل في الحرم أو دخل في الشهر الحرام وأحرمه لغة في حرمه العطية أي منعه كذا في ضياء الحلوم مختصر شمس العلوم وهو في الشريعة نية النسك من حج أو عمرة مع الذكر أو الخصوصية على ما سيأتي ، وهو شرط صحة النسك كتكبيرة الافتتاح في الصلاة".

(كتاب الحج ،باب الإحرام ،ج:2،ص:344،ط:دار الكتاب الإسلامي)

الدرالمختار مع ردالمحتار میں ہے:

"(و) الحج (فرضه) ثلاثة (الإحرام) وهو شرط ابتداء، وله حكم الركن انتهاء حتى لم يجز لفائت الحج استدامته ليقضي به من قابل (والوقوف بعرفة) في أوانه سميت به لأن آدم وحواء تعارفا فيها (و) معظم (طواف الزيارة) وهما ركنان.

مطلب في فروض الحج وواجباته (قوله فرضه) عبر به ليشمل الشرط والركن ط (قوله الإحرام) هو النية والتلبية أو ما يقوم مقامها أي مقام التلبية من الذكر أو تقليد البدنة مع السوق لباب وشرحه (قوله وهو شرط ابتداء) حتى صح تقديمه على أشهر الحج وإن كره كما سيأتي ح (قوله حتى لم يجز إلخ) تفريع على شبهه بالركن يعني أن فائت الحج لا يجوز له استدامة الإحرام، بل عليه التحلل بعمرة والقضاء من قابل كما يأتي، ولو كان شرطا محضا لجازت الاستدامة اهـ ح ويتفرع عليه أيضا ما في شرح اللباب من أنه لو أحرم ثم ارتد والعياذ بالله تعالى بطل إحرامه وإلا فالردة لا تبطل الشرط الحقيقي كالطهارة للصلاة اهـ وكذا ما قدمناه من اشتراط النية فيه، والشرط المحض لا يحتاج إلى نية وكذا ما مر من عدم سقوط الفرض عن صبي أو عبد أحرم فبلغ أو عتق ما لم يجدده الصبي ۔۔۔۔۔۔[تتمة]بقي من فرائض الحج: نية الطواف، والترتيب بين الفرائض، الإحرام، ثم الوقوف، ثم الطواف وأداء كل فرض في وقته فالوقوف من زوال عرفة إلى فجر النحر والطواف بعده إلى آخر العمر، ومكانه أي من أرض عرفات للوقوف ونفس المسجد للطواف وألحق بها ترك الجماع قبل الوقوف لباب وشرحه."

(كتاب الحج ،ج:2،ص:467،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے

"(وأما ركنه فشيئان) الوقوف بعرفة وطواف الزيارة لكن الوقوف أقوى من الطواف كذا في النهاية حتى يفسد الحج بالجماع قبل الوقوف، ولا يفسد بالجماع قبل طواف الزيارة كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان."

(كتاب المناسك ،الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه،ج:1،ص:216،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100686

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں