میں نے 2018 میں حکومت کی اسکیم کے ذریعے حج کی درخواست دی تھی، میرا نام بھی آ گیا تھا۔ لیکن 2018 میں کووڈ آ گیا، اور حج اگلے دو سال تک ملتوی ہو گیا۔ میں نے پھر وہ پیسے کہیں اور خرچ کر دیے۔ آپ مجھے یہ بتائیں، کہ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے، کہ کیا مجھ پر اب حج فرض ہو گیا ہے؟ اس وقت میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں حج کر سکوں؟ اور کیا اگر فرض ہو گیا ہے، تو میں قرضہ لے کر حج کروں، ورنہ گناہ گار ہوں گا؟
صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص کی ملکیت میں اتنی رقم جمع ہوگئی تھی کہ جس سے اس پر حج فرض ہو جائے،اور اسی بنا پر حج اسکیم کے تحت اس کی درخواست بھی قبول ہو گئی تھی، تو مذکورہ شخص پر حج لازم ہو گیا تھا، لیکن جب مذکورہ شخص کووڈ کی وجہ سے حج پر نہیں جا سکا اوررقم کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرلی تو ایسے آدمی پر حج بدستور فرض ہے، حج کا ذمہ ساقط نہیں ہوگا، بلکہ حج کی ادائیگی اس کے ذمہ میں باقی ہے۔
اگر مرنے سے پہلے حج کرنے کے اسباب بن جائیں تو حج ادا کرلے، ورنہ حجِ بدل کی وصیت کرنا ضروری ہوگا، اوراسباب کے باوجود حج نہ کرنے کی وجہ سے توبہ واستغفار کرنا بھی ضروری ہوگا، پھر اگر اس کے ترکہ میں مال ہوتو ورثاء پر ایک تہائی مال میں سے حج ِبدل کرانا لازم ہوگا، اور اگر ترکہ میں مال نہ ہو تو ورثاء پر حج بدل کرانا لازم تو نہیں ہوگا، البتہ اگر خوشی سے حج بدل کرادیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"(وأما فرضيته) فالحج فريضة محكمة ثبتت فرضيتها بدلائل مقطوعة حتى يكفر جاحدها، وأن لا يجب في العمر إلا مرة كذا في محيط السرخسي، وهو فرض على الفور، وهو الأصح فلا يباح له التأخير بعد الإمكان إلى العام الثاني كذا في خزانة المفتين. فإذا أخره، وأدى بعد ذلك وقع أداء كذا في البحر الرائق وعند محمد - رحمه الله تعالى - يجب على التراخي والتعجيل أفضل كذا في الخلاصة.والخلاف فيما إذا كان غالب ظنه السلامة أما إذا كان غالب ظنه الموت أما بسبب الهرم أو المرض فإنه يتضيق عليه الوجوب إجماعا كذا في الجوهرة النيرة وثمرة الخلاف تظهر في حق المأثم حتى يفسق وترد شهادته عند من يقول على الفور، ولو حج في آخر عمره فليس عليه الإثم بالإجماع، ولو مات، ولم يحج أثم بالإجماع كذا في التبيين....
لو ملكه مسلما فلم يحج حتى افتقر حيث يتقرر الحج في ذمته دينا عليه كذا في فتح القدير".
(كتاب المناسك ، الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه، ج:1، ص:216، ط:مکتبہ رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607101287
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن