حجامہ کرانے میں اگر خون نہ نکلے تو حجامہ صحیح ہوتا ہے؟
بصورتِ مسئولہ "حجامہ" جو کہ رسولِ اکرم ﷺ کی سنتِ مبارکہ اورمختلف بیماریوں سے نجات و علاج کا ذریعہ ہے،اِس کے قدیم و جدید طریقہ کار میں بدن انسانی سے فاسد خون کو سینگ یا کسی اور آلہ کی مدد سے باہر کھینچ کر نکال دیاجاتا ہے، حجامے کے عمل میں اصل خون نکلنے کا عمل ہی ہوتا ہے، کیوں کہ اُس فاسد خون کا نکلنا ہی انسانی صحت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے،لہذا اگر سائل کے حجامے کے دوران خون نہیں نکلا تو عین ممکن ہے حجامہ کا طریقہ کار درست نہ ہو، تاہم اس سے شرعاً کوئی گناہ لازم نہیں آتا، بہرکیف حجامہ کے لیے کسی ماہر و تجربہ کار شخص سے رابطہ کرنا چاہیے،ناتجربہ کار شخص سے حجامہ کرانے میں نقصان بھی ہوسکتا ہے۔
الموسوعة الفقهية الكويتية ميں ہے:
"والحجامة في كلام الفقهاء قيدت عند البعض بإخراج الدم من القفا بواسطة المص بعد الشرط بالحجم لا بالفصد . وذكر الزرقاني أن الحجامة لا تختص بالقفا بل تكون من سائر البدن. وإلى هذا ذهب الخطابي.
فصد يفصد فصدا وفصادا: شق العرق لإخراج الدم. وفصد الناقة شق عرقها ليستخرج منه الدم فيشربه .
فالفصد والحجامة يجتمعان في أن كلا منهما إخراج للدم، ويفترقان في أن الفصد شق العرق، والحجامة مص الدم بعد الشرط.
التداوي بالحجامة مندوب إليه، وورد في ذلك عدة أحاديث عن النبي صلى الله عليه وسلم منها قوله: خير ما تداويتم به الحجامة ومنها قوله: خير الدواء الحجامة."
(حرف الحاء،ج ،17،ص:14،ط:دارالسلاسل)
فقط والله تعالى اعلم
فتوی نمبر : 144609101777
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن