"انما انا قاسم واللہ یعطی "کے تحت ہم نبی کریم ﷺ سے مانگ سکتے ہیں؟کیا ہم بھی اللہ کے رسولﷺ سے التجائیں کر سکتے ہیں ؟
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ضروریات کے بارے میں سوال کرنے کی اجازت نہیں، ضروریات پوری کرنے والی ذات باری تعالی کی ہے، اسی سے براہ راست طلب کرنا چاہیے، البتہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ رب العزت سے سوال کرنا صحیح احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہےاور دعا کے قبول ہونے میں زیادہ مؤثر ہے، احادیث میں صحابہ کرام کا حضور ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگنا ثابت ہے،تاہم یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ عقیدہ رکھنا بھی درست نہیں ہے کہ دعا صرف آپ ﷺ کے وسیلے ہی سے مانگنا لازم ہے، اور اگر کوئی شخص دعا میں مذکورہ الفاظ استعمال نہ کرتاہو، لیکن وسیلے کے جواز کا قائل ہو، اسے بھی غلط نہیں سمجھنا چاہیے۔
البتہ اگر کوئی شخص دوسروں کو ایذا دیے بغیر اور توحید کا پختہ عقیدہ رکھتے ہوئے فرطِ عشق میں یا دنیاوی غم سے مغلوب ہوکر روضۂ پاک پر دل دل میں اپنی کیفیت یا غم کہہ دیتا ہے تو اس کی ممانعت نہیں ہے، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے روضۂ مبارکہ میں حیات ہیں اور وہاں حاضر ہوکر سلام پیش کرنے والوں کا سلام سنتے بھی ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں، لہٰذا جس طرح دنیا میں موجود ہوتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر دل کا درد بیان کرنا درست تھا، اسی طرح آپ ﷺ کے روضۂ مبارکہ پر حاضر ہوکر دل کی حالت بیان کرنا ممنوع نہیں ہے، اور جس طرح رسول اللہ ﷺ کی دنیوی حیات میں آپ ﷺ سے مافوق الاسباب مانگنا اور دعا کرنا منع تھا اسی طرح دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی اس کی ممانعت ہوگی۔
روح المعانی میں ہے:
"واستدل بعض الناس بهذه الآية على مشروعية الاستغاثة بالصالحين وجعلهم وسيلة بين الله تعالى وبين العباد والقسم على الله تعالى بهم بأن يقال: اللهم إنا نقسم عليك بفلان أن تعطينا كذا، ومنهم من يقول للغائب أو الميت من عباد الله تعالى الصالحين: يا فلان ادع الله تعالى ليرزقني كذا وكذا، ويزعمون أن ذلك من باب ابتغاء الوسيلة،ويروون عن النبي صلّى الله عليه وسلّم أنه قال- إذا أعيتكم الأمور فعليكم بأهل القبور، أو فاستغيثوا بأهل القبور- وكل ذلك بعيد عن الحق بمراحل. وأما إذا كان المطلوب منه ميتا أو غائبا فلا يستريب عالم أنه غير جائز وأنه من البدع التي لم يفعلها أحد من السلف، نعم السلام على أهل القبور مشروع ومخاطبتهم جائزة،نعم الدعاء في هاتيك الحضرة المكرمة والروضة المعظمة أمر مشروع فقد كانت الصحابة تدعو الله تعالى هناك مستقبلين القبلة ولم يرد عنهم استقبال القبر الشريف عند الدعاء مع أنه أفضل من العرش."
(روح المعاني : ج:3 ص:294، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201106
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن