ایک حاجی نے طواف زیارت نہیں کیا، حج کے بعد اس نے نفلی طواف کیے، کیا ایک نفلی طواف ، طواف زیارت کے قائم مقام ہو سکتا ہے؟ اور وہ حاجی طواف زیارت کیےبغیر پاکستان آ گیا، اب اس پر بیوی حلال ہے یا حرام ؟ اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟
صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے ایام نحر میں کوئی بھی طواف کیا ہو تو یہ طواف طوافِ زیارت کے قائم مقام ہوجائے گا، اوراس کا طواف زیارت ادا ہوجائے گا اور بیوی اس کےلیے حلال ہوجائے گی۔ اگر ایام النحر کے بعد طواف کیا ہو خواہ نفلی ہو تو اس صورت میں بھی طوافِ زیارت ادا ہوجائےگا البتہ تاخیر کی وجہ سے دم لازم آئے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: وحل له النساء) أي بعد الرکن منه، وهو أربعة أشواط، بحر، ولو لم یطف أصلاً لایحل له النساء وإن طال ومضت سنون بإجماع، کذا في الهندیة".
( کتاب الحج، ج:6،ص:518،ط:سعید)
وفیه أیضاً:
"أو ترك أقل سبع الفرض) يعني ولم يطف غيره، حتى لو طاف للصدر انتقل إلى الفرض ما يكمله.
(قوله: حتى لو طاف للصدر) أي مثلا لأن أي طواف حصل بعد الوقوف كان للفرض كما قدمناه شرنبلالية، وأفاد ذلك بقوله يعني ولم يطف غيره."
(کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج،ج:2،ص:552،ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا طاف للزيارة جنبا ووجبت عليه الإعادة فإن طاف للصدر في آخر أيام التشريق على الطهارة وقع طواف الصدر عن طواف الزيارة وصار تاركا طواف الصدر فيجب عليه دم لتركه، وهذا بلا خلاف، ويجب عليه دم آخر لتأخير طواف الزيارة عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في المحيط."
(کتاب المناسک، الباب الثامن فی الجنایات، الفصل الخامس في الطواف والسعي،ج:1،ص:646،ط:دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102554
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن