ایک آدمی پر حج فرض تھا اور حج کے لئے داخلہ بھی کیا،لیکن اچانک مرگیا اور وصیت بھی نہیں کی،اب ورثاء اس کی طرف سے ادائیگی حج کے خواہش مند ہیں،تو کیا حج بدل کی نیت کریں گے یا اب نفلی حج کرکے ایصال ثواب کریں گے؟
مرحوم نے چوں کہ حج بدل کی وصیت نہیں کی ہے تو ایسی صورت میں ورثاء پر حجِ بدل کرانا لازم تو نہیں ہے، ورثاء اپنی مرضی و خوشی سے کسی کو ان کی طرف سے حجِ بدل کروالیں تو یہ ورثاء کے لیے بڑی سعادت کی بات ہوگی اور ان کی طرف سے مرحوم پر احسان ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
(وان لم یوص به) أي بالإحجاج (فتبرع عنه الوارث) وكذا من ھم أھل التبرع (فحج) أي الوارث ونحوہ (بنفسه) أي عنه (أوحج عنه غیرہ جاز)
(كتاب الحج، باب الحج عن الغير، ۵۹۹/۲ ط: ايچ ايم سعيد۵۹۹/۲)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"اگر بغیر وصیت کوئی وارث اپنے حصے سے حج ادا کرادے، یا اپنی طرف سے اپنے مال سے ادا کرادے تو امید ہے کہ وہ میت مواخذہ سے بری ہوجائے".
(۱۰/۴۲۱، دار الافتاء جامعہ فاروقیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100583
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن