بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کی کیافضیلت ہے؟


سوال

حج کی کیا فضیلت ہے؟

جواب

حج اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ایک اہم ترین رکن ہے ، اور یہ  ہر اس عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہوتاہے جس  کے پاس زندگی کی بنیادی ضروریات کے اخراجات،  نیز اہل وعیال کے واجبی خرچے پورے کرنے کے بعد اس قدر زائد رقم ہو جس سے حج کےضروری اخراجات (آمد و رفت اور وہاں کے قیام وطعام وغیرہ) پورے ہوسکتے ہوں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، عرض کیا گیا: پھر کونسا ہے؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھر عرض کیا گیا کہ پھر کونسا ہے؟ فرمایا کہ حج جو برائیوں سے پاک ہو۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هریرۃ رضي الله عنه قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم: أي الأعمال أفضل؟ قال: (إيمان بالله ورسوله). قيل: ثم ماذا؟ قال (جهاد في سبيل الله). قيل: ثم ماذا؟ قال: (حج مبرور)".

(صحیح البخاری، كتاب الحج، باب فضل الحج المرور، ج: 2، صفحہ: 553، رقم الحدیث: 1477، ط: دارابن کثیر)

وفیہ ایضاً: 

"وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حج فلم يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته أمه»".

(مشکوۃ المصابیح، کتاب الحج، الفصل الاول، رقم الحدیث:2507، ج: 2، صفحہ: 772، رقم الحدیث: 2507، ط: المکتب الاسلامی)

ترجمہ:" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رضائے الٰہی کے لیے حج کرے جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب ہو تو  وہ ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے ابھی جنا ہو۔"

وفیہ ایضاً:

"وعن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من لم يمنعه من الحج حاجة ظاهرة أو سلطان جائر أو مرض حابس فمات ولم يحج فليمت إن شاء يهوديا وإن شاء نصرانيا» . رواه الدارمي".

(مشکوۃ المصابیح،کتاب الحج، الفصل الثالث، ج: 2، صفحہ: 777، رقم الحدیث: 2535،ط: المکتب الاسلامی)

ترجمہ:"حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو فریضۂ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (یعنی سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر ہی) مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے)۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں