بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حج میں بوتل سے وضوکرنے کا حکم


سوال

میں جب حج پر گئی ، میں نے بعض جگہوں پر ایسے وضو کیا کہ جیسے پانی کی بوتل میں سے ایک ہاتھ میں تھوڑا سا پانی ڈال کے اس کو پہلے منہ پر، پھر ایک بازو ،پھر دوسری بازو پر ،گویا پانی نے وضو کے ہر عضو کو نم کردیا، لیکن پانی بہایا نہیں ،تو ایسے وضو کرنے کا کیا حکم ہے ؟ جیسے مطاف میں ہم لوگ جب ہوتے تھے، تو تب وضو کرنےکے لیےبہت دور جانے کی ضرورت ہوتی تھی، اور جب نماز کا وقت ہوتا یا وضو کے ٹوٹنے میں شک ہوتا ،تو ہم لوگ ایسے وضو کر لیتے تھے ۔اور جب غار ثور پر اوپر چڑھ کر ہم نے نوافل ادا کئے ،تو تب بھی ہمارے پاس پانی موجود نہیں تھا، حالانکہ دکان تھی، پانی خرید سکتے تھے ،پانی خریدنے کے لیے ریال بھی تھے ،لیکن ہم نے پانی نہیں خریدا، جو ہمارے پاس بوتل تھی اسی میں سے ہی وضو کیا۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر سائلہ نے بوتل سے وضو کیا، اور پانی سے اعضائے وضو کو اس طرح دھویا کہ پانی کاایک قطرہ بھی نہیں بہا،تو یہ مسح کےحکم میں ہوجائے گا  اور اس وضو سے نماز صحیح  نہیں ہوگا ،چوں کہ پانی کو  اعضائے وضوپر بہانا  (اگر چہ ایک ہی قطرہ ہو) شرط ہے ،البتہ اگر بوتل سے وضو کرنےسے  اعضائے وضو سے پانی بہہ جائے  (ایک  قطرہ بھی کیوں نہ ہو )تو وضو صحیح ہوجائےگا۔

رد المحتار  میں ہے : 

"(غسل الوجه) أي ‌إسالة ‌الماء ‌مع ‌التقاطر ولو قطرة."

(کتاب الطھارۃ ، ارکان الوضو، ج: 1 ص: 96 ط: دار الفکر) 

و فیہ ایضا : 

"أن الواجب الغسل وهو ‌إسالة ‌الماء ‌مع ‌التقاطر كما مر في أركان الوضوء."

(کتاب الطھارۃ، فرض الغسل، ج: 1 ص؛ 153 ط: دار الفکر) 

حاشیہ بن عابدین میں ہے: 

"فقال أبو حنيفة ومحمد: هو الإسالة مع التقاطر ولو قطرة حتى لو لم يسل الماء بأن استعمله استعمال الدهن لم يجز في ظاهر الرواية."

(كتاب الطهارة، اركان الوضو، ج: 1 ص: 95 ط: دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144510101780

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں