بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حکیم ایپلیکیشن سے قرض لینے کا حکم


سوال

اس وقت پاکستان میں قرضے فراہم کرنے کی کئی ایپلی کیشنز موجود ہیں، جن کے ذریعے صارفین موبائل فون کے ذریعے چھوٹے قرضے (مائیکرو   فائنانس) حاصل کر سکتے ہیں اور صارفین کو یہ قرض محدود مدت میں واپس کرنا پڑتا ہے۔ ان ہی میں سے ایک ایپلی کیشن "حکیم" ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کسی کو 10,000 روپے قرض درکار ہوں تو وہ اس ایپلی کیشن کے ذریعے قرض کی درخواست دے گا، یہ ایپلی کیشن صارف کے کوائف کی جانچ پڑتال کے بعد کچھ گھنٹوں کے اندر 10,000 کی رقم فراہم کر دے گی۔ اگر صارف نے قرض لیتے وقت ایک ماہ میں یہ رقم لوٹانے کا کہا ہے تو ایک ماہ بعد صارف کو 12,250 روپے واپس کرنے ہوں گے (جب کہ 15 دن میں لوٹانے کی صورت میں 11,125 روپے لوٹانا ہوں گے)۔ 12,250 روپے جو صارف کو لوٹانے ہوں گے اس میں حکیم ایپلی کیشن کا مقرر کردہ اے پی آر (Annual Percentage Rate - APR) جو کہ 273.75 فیصد ہے شامل ہے، جب کہ یہ کوئی فیس چارج نہیں کرتے یعنی فیس صفر روپے ہے۔

حکیم ایپلی کیشن کے کام کا طریقہ کار

حکیم ایپلی کیشن کی ویب سائٹ پر مہیا کی گئی معلومات کے مطابق اس میں کوئی پروسیسنگ شامل نہیں ہے اور نفع کی شرح روزانہ 0.75% ہے جو 2,250 روپے بنتے ہیں، تاخیر سے ادائیگی کا خیراتی عطیہ 75 روپے ہے (مثال کے طور پر ایک دن کی تاخیر کے لیے 75 روپے کا خیراتی عطیہ ادا کرنا ہو گا، جو پرنسپل اور نفع میں شامل ہو گا اور یہ رقم چیریٹی صدقہ و فلاحی کاموں میں جائے گی)۔

ان کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ یہ کمپنی سود سے پاک مالیاتی خدمات فراہم کرتی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ سود نہیں، بلکہ تجارت ہے، اس کا طریقہ کار انہوں نے یوں بیان کیا ہے کہ جب صارف کو 10,000 روپے دیے جاتے ہیں، تو بنیادی طور پر سب سے پہلے "WFS" نامی پارٹنر ایک کموڈیٹی بیچنے والے سے دس ہزار روپے کی کموڈیٹی خریدتے ہیں، پھر کموڈیٹی بیچنے والا اس کموڈیٹی کی ملکیت WFS کو منتقل کر دیتی ہے، اس کے بعد WFS یہ کموڈیٹی (سامان) صارف کو 12,250 روپے کی مؤخر ادائیگی (Deferred Payment) کی بنیاد پر فروخت کرتا ہے، جس میں قیمت مع نفع شامل ہے، اس کے بعد صارف یہ کموڈیٹی کیش قیمت پر مارکیٹ قیمت پر (دس ہزار روپے میں) کموڈیٹی خریدنے والے کو بیچ دیتا ہے، کموڈیٹی خریدنے والا کیش پیمنٹ دس ہزار روپے صارف کو دے دیتا ہے، اس طریقے سے صارف کو دس ہزار روپے کیش قرض مل جاتا ہے۔

یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ صارف کو یہ سارا عمل نظر نہیں آ رہا ہوتا، وہ تو بس موبائل ایپلی کیشن پر دس ہزار قرض کی درخواست دیتا تو ہے اور یہ سارا عمل پیچھے ہو رہا ہوتا ہے۔ پھر جب صارف کو قرض لوٹانا ہوتا ہے تو 12,250 روپے WFS کو موخر ادائیگی کی مد میں ادا کرے گا، مستقبل کی تاریخ پر، اس پر یہ پورا عمل انجام پاتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ تمام عمل ایپلی کیشن خود انجام دیتی ہے اور صارف 10,000 روپے کی درخواست دے گا اور ایک ماہ بعد 12,250 روپے واپس کرے گا۔ اس پیکج کو سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (SECP) نے منظور کیا ہے اور ان کے پاس شرعی ایڈوائزر بھی ہیں۔

حکیم کی ویب سائٹ پر ایک فتویٰ موجود ہے جس میں کموڈیٹی ان کے ہاں ایئر ٹائم (Airtime) ہے۔

حکیم مختلف ٹیلی کمیونیکیشن سروس پروائیڈرز سے مخصوص ایئر ٹائم خریدتا ہے اور اسے اپنے ان صارفین کو فروخت کرتا ہے اور یہ فروخت مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر ہوتی ہے، اس کے بعد صارفین کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ایئر ٹائم کو اپنی موبائل سم میں منتقل کریں یا ایک ایجنٹ مقرر کریں جو ایئر ٹائم کو اپنے کسٹمرز/ریٹیلرز کو فروخت کرے اور فروخت کی کامیابی پر صارفین کو نقد رقم فراہم کرے، مالی نظم و ضبط کو فروغ دینے اور بر وقت قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کو روکنے کے لیے، حکیم صارفین کی اپنی مرضی کے مطابق چیریٹی جمع کرتا ہے اور اس کو صارفین کی جانب سے خیراتی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ایئر ٹائم کا مفہوم:

ایئر ٹائم کی تعریف یہ ہے کہ جتنی دیر موبائل فون پر صارف کال، میسج یا انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے اسے ایئر ٹائم کہا جاتا ہے، ایئر ٹائم Airtime پیدا نہیں ہوتا، خرچ نہیں ہوتا، بلکہ انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والے یا موبائل فون کمپنیاں صرف اس بات کا حساب رکھتے ہیں کہ کس نے کتنا انٹرنیٹ ایئر ٹائم استعمال کیا، یا کال کی یا میچ کی اور پھر اس کے حساب سے اپنے اخراجات اور منافع کو ذہن میں رکھتے ہوئے صارفین سے فیس مختلف پیکجز کی صورت میں وصول کرتے ہیں۔

اب درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

سوال نمبر 1: کیا اس طریقے سے قرض لینا جائز ہے؟ اگر کسی نے 10,000 روپے کا قرض لیا اور اسے ایک ماہ بعد 12,250 روپے کی صورت میں واپس کر رہا ہے تو کیا یہ جائز ہو گا یا نہیں؟

سوال نمبر 2: اس ایپلی کیشن کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں اگر ایک دن میں دس ہزار افراد 10,000 روپے قرضے کی درخواست کرتے ہیں الگ الگ، اور انہیں یہ قرض چند گھنٹوں میں مل جاتا ہے تو کیا یہ عملی طور پر ممکن ہے؟ یعنی اگر ہم اصلی کموڈیٹی کی بات کریں جیسے گیہوں، چاول وغیرہ تو ان کو رکھنا، ان کو بیچنا مشکل کام ہو گا۔ اس کمپنی نے بجائے ان حقیقی کموڈیٹی کے ایئر ٹائم کو بطور کموڈیٹی اختیار کیا ہے۔ جب یہ کمپنی 10,000 روپے کی کموڈیٹی (ایئر ٹائم) خرید رہی ہو اور پھر اسے 12,250 روپے میں صارفین کو بیچ رہی ہو، کیونکہ یہ قرض چند گھنٹوں میں فراہم کرتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ صارفین کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ شرعی طور پر مناسب ہے؟

سوال نمبر 3: جب یہ طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے، اور لوگ قرض ہی لے رہے ہیں لیکن اس پر اتنے بڑے پیمانے پر اس کو قرض کے بجائے  فائنانسنگ کا نام دیا جا رہا ہے اور اس پر منافع لینا سود ہے۔ قرض دینے والے اگر مقروض کو کوئی رعایت دیتا ہے تو قرض واپس لینے میں تو اس کو آخرت میں ثواب ملے گا۔ تو سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر یہ کیا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے   فائنانس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا ایسا کرنا شرعی طور پر مناسب ہے؟ یعنی اگر کوئی کمپنی یہ کہے کہ ہمارے پاس انویسٹ کریں اور ہم آپ کو منافع دیں گے، تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن یہاں تو صارف کو قرض چاہیے اور وہ قرض لے بھی رہا ہے، اور واپسی میں زیادہ پیسے دے رہا ہے۔ پھر اس عمل کو تمویل یا   فائنانسنگ  کا نام کیوں دیا جا رہا ہے؟

سوال نمبر 4: یہاں ظاہر محسوس ہوتا ہے کہ ایک کمپنی قرض دینے کے نام پر  فائنانسنگکا عمل انجام دے رہی ہے۔ اگر یہ کمپنی انویسٹمنٹ یعنی سرمایہ کاری کے طور پر منافع دینے کا اعلان کرے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن یہاں تو صارف قرض لے رہا ہے اور اسے زیادہ رقم واپس کرنی ہوتی ہے۔ مفتی صاحب، کیا اس طرح کا عمل جائز ہے؟ کیا ایسا کرنا درست ہے؟

سوال نمبر 5: اور کیا اس طرح بڑے پیمانے پر کمپنیوں کو اس بات کی اجازت دینا کہ وہ قرضے کے نام پر   فائنانسنگ کر رہی ہوں، مناسب عمل ہے؟ پوری معیشت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پورے پاکستان میں یہ جو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (SECP) لائسنس جاری کر رہا ہے، یہ عملی طور پر رائج ہو چکا ہے اور لوگ قرضے لے رہے ہیں۔ کیا یہ اصولی طور پر صحیح ہے؟

سوال نمبر 6: جب ہم روز مرہ کی زندگی میں کسی سے قرض لیتے ہیں تو وہ بطور احسان ہمیں قرض دیتا ہے اور ہم اس کو کچھ عرصے بعد لوٹانے کا کہتے ہیں اور اس میں شرعی طور پر وہ ہم سے کوئی چیز گروی بھی رکھ سکتا ہے۔ ہم جب اس کو قرض لوٹائیں گے تو وہ مالیت وہی ہونی چاہیے جو اس نے قرض دیتے وقت دی تھی،  ورنہ اضافہ سود کہلائے گا۔ اگر کسی نے روپے میں قرض لیا ہے اور چونکہ روپے کی گراوٹ کی  وجہ سے اگر وہ یہ کہے کہ تین سال پہلے تم نے دو لاکھ روپے قرض لیا تھا، اب چونکہ روپے کی قدر میں گراوٹ آئی ہے اور ہم اتنی مالیت کے اثاثے اس سے نہیں خرید سکتے، تو اس سے زیادہ پیسے دیے جائیں تو  اس کو  ہمیشہ سے سود کہا جاتا رہا ہے۔ اگر کسی  اپنے قرض کی  قدر کو محفوظ رکھتا ہے تو وہ سونے کو بطور قرض دے دے، تو اگر کچھ سال بعد بھی سونا واپس ادا کیا جائے گا تو اس کی قدر برقرار رہے گی۔ تو کیا اب میں قرضے کے نظریہ کو سرے سے شریعت میں سے ختم کر دینا چاہیے؟ اور اس کے بدلے حکیم کمپنی کا حیلہ اختیار کرلے۔ تو کیا اس کرنا جائز ہوگا؟

سوال نمبر 7: کیا ایئر ٹائم کو بطور کموڈیٹی خرید و فروخت کرنا جائز ہے اور اس کمپنی کا اسے بطور کموڈیٹی قرض کے حیلہ کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ  مطہرہ کا قرض کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ قرض خواہ  کا اپنی قرض دی ہوئی رقم سے زائد  وصول کرنا اور قرض دار کا قرض لی گئی رقم سے زائد دینا شرعا ناجائز ہے اور اس کے لیے کسی بھی طرح کا حیلہ اختیار  کرنا شرعاً جائز نہیں؛ کیوں کہ اس کا مقصد  وہی قرض پر نفع لینا ہے، جو کہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں :

1۔ دس ہزار قرض لینا اور ایک مہینہ بعد بارہ ہزاردوسو پچاس واپس کرنا ، قرض پر نفع کا لین دین ہے، جو کہ سود ہونے کی وجہ سے شرعا ناجائزوحرام ہے۔

2،7۔  کمپنی کا ایئر ٹائم کی بطورِ کموڈیٹی خریدو فروخت چوں کہ قرض پر نفع  لینے کا ایک حیلہ ہے، جس کا اختیار کرنا شرعا جائز نہیں؛ کیوں کہ اس کا مقصد  وہی قرض پر نفع لینا ہے، جو کہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے۔

3،4۔مذکورہ صورت کو فائنانسنگ کا نام دینا شرعا درست نہیں۔

5۔قرض دے کر اس پر اضافی نفع لینا اور اس کو  فائنانسنگ کا نام دینا قطعا درست نہیں۔

6۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے   اپنی دعاؤں میں قرض سے پناہ مانگی ہے اور امت کو بھی اس کی تعلیم دی ہے، مگر امت کی تعلیم کی غرض سے قرض کے لین دین کے آداب بھی سکھائے ہیں،  اس لیے اولاً تو قرض لینا نہیں چاہیے، مگر کبھی ضرورت ہوتو  قرض لینے کے بعد حتی الامکان جلد از جلد واپس کردینا چاہیے اورشریعت نے قرض کے بدلے کوئی چیز گروی رکھنے کی بھی اجازت دی؛ تاکہ  قرض ادا نہ ہونے کی صورت میں قرض  خواہ اس گروی چیز سے اپنے قرض کی رقم وصول کرسکے،نیز قرض میں جو چیز جس قدر لی جائے گی، اسی قدر وہی چیز واپس کی جائے گی، اب چاہے وہ کسی ملک کی کرنسی ہو یا سونا ہو۔بہرحال کسی بھی صورت میں حکیم  ایپلیکیشن والوں کا قرض کے لے مذکورہ حیلہ اختیا رکرنا شرعا جائز نہ ہوگا۔

السنن الکبری للبیہقی میں ہے:

"11037 - أخبرنا أبو عبد الله الحافظ وأبو سعيد ابن أبى عمرو قالا: حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، حدثنا إبراهيم بن منقذ، حدثنى إدريس ابن يحيى، عن عبد الله بن عياش قال: حدثنى يزيد بن أبى حبيب، عن أبى مرزوق التجيبى، عن فضالة بن عبيد صاحب النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال: ‌كل ‌قرض ‌جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا. موقوف".

(كتاب البيوع، ‌‌باب: كل قرض جر منفعة فهو ربا، ج:11، ص:294، ط: مركز النخب العلمية)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"21937 - حدثنا أبو بكر قال: حدثنا حفص عن أشعث عن الحكم عن إبراهيم قال: ‌كل ‌قرض ‌جر منفعة فهو ربا".

(كتاب البيوع والأقضية، من كره كل قرض جر منفعة، ج:11، 425، ط: دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع)

سنن نسائی میں  ہے:

7857 -" أخبرنا أحمد بن عمرو بن السرح، قال: أخبرنا ابن وهب، عن حيي بن عبد الله، قال: حدثني أبو عبد الرحمن الحبلي، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو بهؤلاء الكلمات «اللهم إني أعوذ بك من ‌غلبة ‌الدين وغلبة العدو وشماتة الأعداء".

(كتاب الاستعاذة، ‌‌الاستعاذة من غلبة الدين، ج:7، ص:278، ط: مؤسسة الرسالة)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الأحکام میں ہے:

"الأمور ‌بمقاصدها يعني: أن الحكم الذي يترتب على أمر يكون على مقتضى ما هو المقصود من ذلك الأمر".

(ج:1، ص:19، ط: دار الجیل)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) ‌الذي ‌يرجع ‌إلى ‌نفس ‌القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض، فأما إذا كانت غير مشروطة فيه ولكن المستقرض أعطاه أجودهما؛ فلا بأس بذلك؛ لأن الربا اسم لزيادة مشروطة في العقد، ولم توجد، بل هذا من باب حسن القضاء، وأنه أمر مندوب إليه قال النبي عليه السلام: «خيار الناس أحسنهم قضاء،وقال النبي عليه الصلاة والسلام عند قضاء دين لزمه - للوازن: زن، وأرجح".

(كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ج:7، ص:395، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606100595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں