میں نے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتاب حفظ الایمان میں پڑھا ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ایسا ہے جیسے بچوں ، پاگلوں اور حیوانوں کو ہوتا ہے ، اس عبارت کا کیا مطلب ہے ؟ بظاہر تو یہ عبارت گستاخانہ لگتی ہے، تو کیا اشرف علی تھانوی گستاخ رسول تھے ؟ اور اگر وہ گستاخ رسول تھے! تو پھر انہیں حکیم الامت کا لقب کیوں عطا کیا گیا؟ اور اگر وہ گستاخ رسول نہیں تھے ،تو پھر اس عبارت کا کیا مطلب ہے؟ براہ کرم تفصیلاً وضاحت فرما دیں ۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ہرگز گستاخِ رسول نہیں تھے بلکہ آپ صحیح معنی میں محب ِ رسول اور سچے عاشقِ رسول تھے،سائل کی ذکر کردہ عبارت محرّف ہے،جس سے (نعوذ باللہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوربچوں ،پاگلوں ، حیوانوں کے درمیان علم میں برابری کا پہلو نظر آتا ہے،جب کہ علمائے دیوبند اور ان کے متبعین کے تمام اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے تمام مخلوقات کا علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے برابر نہیں ،اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت و رسالت کے متعلق تمام علوم و کمالات سے سرفراز فرمایاتھا جس کی تصریح حفظ الایمان میں نقل کردہ ایک مصرع میں اس طرح ہے-
ع بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر-
حفظ الایمان کی اصل اور پوری عبارت اس طرح ہے’’پھر یہ کہ آپ کی ذاتِ مقدّسہ پر علمِ غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو،تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب اگر بعض علومِ غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی کیا تخصیص ہے ایسا علمِ غیب تو زید و عمرو بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات وبہائم کے لیے بھی حاصل ہےکیوں کہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہے جو دوسرے شخص سے مخفی ہے تو چاہیے کہ سب کو عالم الغیب کہا جاوے۔پھر اگر زید اس کا التزام کر لے کہ ہاں میں سب کو عالم الغیب کہوں گا تو پھر علم الغیب کو منجملہ کمالاتِ نبویہ شمار کیوں کیا جاتا ہے جس امر میں مؤمن بلکہ انسان کی بھی خصوصیت نہ ہو وہ کمالاتِ نبوت سے کب ہو سکتا ہے اور اگر التزام نہ کیا جاوے تو نبی غیر نبی میں وجہ فرق بیان کرنا ضروری ہے،اور اگر تمام علومِ غيب مراد ہيں اس طرح كه اس كي ايك فرد بھي خارج نہ رہے تو اس کا بطلان دلیل نقلی و عقلی سے ثابت ہے‘‘
(حفظ الایمان صفحہ:15،ناشر: دار الکتاب دیوبند)
اس پوری عبارت کو بغور پڑھنے سے سائل کاشبہ جاتا رہا،کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم مساوی ہے بچوں اورپاگلوں کے علم کے،اور یہ واضح ہوگیا کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نےشان ِرسالت میں کسی ادنی گستاخی کا بھی ارتکاب نہیں کیاہے،نیز اس عبارت کا پس ِمنظر یہ ہے کہ کسی شخص نے حضرت تھانوی قدس سرہ سے تین سوال کیے تھے،ان میں تیسرا سوال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟"حفظ الایمان"کی عبارت یہ ہے:’’اور(زيد)کہتا ہے کہ علم غیب کی دو قسمیں ہیں:(1)بالذات اس معنی کر عالم الغیب خدائے تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا،(2)اور بالواسطہ اس معنی کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم "عالم الغیب"تھے،زید کا یہ استدلال اور عقیدہ اور عمل کیسا ہے؟‘‘(حفظ الایمان ص:3)
مذكوره بالا عبارت ميں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے سائل کو یہ بتایا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی مانندعالم الغیب نہیں تھے،اس معنیٰ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہنا جائز نہیں ہے،عالم الغیب صرف اسی ہستی کو کہا جاسکتا ہے جس کو ذاتی طور پر بلاواسطہ غیب کا علم ہو،اور یہ شان صرف اللہ جل شانہ کی ہے،جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم تمام مخلوقات سے زیادہ اور افضل ضرور تھا لیکن بواسطہ وحی الہٰی تھا،لہٰذا اگر رسول اللہ صلی وعلیہ وسلم کو عالم الغیب کہنے والا اس لیے عالم الغیب کہتا ہے کہ اس کے نزیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبلاواسطہ تمام غیوب کا تفصیلی علم ہےجیسے کہ خدا تعالیٰ کو ہے،تو اس عقیدہ کا باطل اور غلط ہونا دلائل نقلیہ و عقلیہ ہر دو سے ثابت ہے؛اس لیے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو’’عالم الغیب‘‘کہنا درست نہیں ہے،اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو’’عالم الغیب‘‘کہنےوالا،تمام غیوب کا علم ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ بعض مغیبات کو جاننے کی وجہ سے کہتا ہے اور اس کا نظریہ یہی ہے کہ جس کو بھی کچھ غیب کی باتوں کو علم ہو ،تو اس کو’’عالم الغیب‘‘کہہ سکتے ہیں،تو پھر اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا تخصیص ہے؟ایسا علم غیب یعنی اتنا علمِ غیب تو ہر کس و ناکس کو حاصل ہے؛کیوں کہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہےجو دوسرے سے مخفی ہے،پس اس غلط نظریہ کی بنا پر یہ لازم آئے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر انسان بلکہ ہر حیوان کو’’عالم الغیب‘‘کہا جائےحالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے،لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عالم الغیب کہنا درست نہیں ۔
(مستفاد از محاضرات علمیہ ،بتغییر و زیادۃ،ص:230،شائع کردہ دفتر دار العلوم دیوبند)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144505101224
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن