احرام کی حالت میں جب ہم سر پر دوپٹہ باندھتے ہیں تو دوپٹے کا تھوڑا سا حصہ پیشانی پر آ جاتا ہے یا کان کے پاس سے تھوڑا آگے آ جاتا ہے، کیوں کے اگر بالکل کان کی لو پر باندھیں تو کان کھلنے کا خطرہ ہوتا ہے، یا اگر بالکل سر کے بالوں سے دوپٹہ باندھیں گی تو وہ سرک جائے گا اور بال نظر آنے لگیں گے، اس لئے تھوڑا سا آگے کر کے باندھنا پڑتا ہے، نیز احرام کی حالت میں ٹھوڑی پر دوپٹہ آ سکتا ہے ؟ اگر چوبیس گھنٹے یا اس سے زیادہ اس طرح چہرے کا ذرا ذرا حصہ (جیسے میں نے اوپر بیان کیا ہے ) چھپا رہا تو کیا جزا دینی ہو گی؟ نیز اگر چوبیس گھنٹے سے کم ہو تو کیا حکم ہو گا ؟
احرام کی حالت میں عورت کو چہرہ کھلا رکھنے کا حکم ہے، اگر پورادن یا رات عورت نے اپنے چہرے کو ڈھانپے رکھا تو اس پر دم لازم آتا ہے ، اور اگر دن یا رات سے کم ڈھانپے رکھا تو صدقہ (صدقہ فطر کےبقدر) دینا لازم ہوگا۔
صورتِ مسئولہ میں اگر دو پٹہ کانوں سے تھوڑا سا آگے اور اسی طرح پیشانی پربالوں سے معمولی سا آگے کرکے باندھنے کی وجہ سے ایک چو تھائی چہرے سے کم حصہ چھپ رہا ہو تو خواہ چوبیس گھنٹے سے کم ہو یا زیادہ سائلہ کے ذمہ صدقہ دینا لازم ہے،اور اگر چوتھائی یا اس زیادہ چھپا رہا ہو تو دم لازم ہو گا۔
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :
"(وقلم الظفر وستر الوجه)كله أو بعضه كفمه وذقنه، نعم في الخانية لا بأس بوضع يده على أنفه."
رد المحتار میں ہے :
"(قوله كله أو بعضه) لكن في تغطية كل الوجه أو الرأس يوما أو ليلة دم والربع منهما كالكل وفي الأقل من يوم أو من الربع صدقة كما في اللباب وأطلقه فشمل المرأة لما في البحر عن غاية البيان من أنها لا تغطي وجهها إجماعا ."
(کتاب الحج ، فصل في الإحرام وصفة المفرد ، ج : 2 ، ص : 487/88 ، ط : سعید)
تاتارخانیہ میں ہے :
"والمحرمة لا تغطى وجهها، وإن فعلت ذلك إن كان يوما إلى الليل فعليها دم، وإن كان أقل من ذلك فعليها صدقة. وفي الينايبع: وفي الأقل من يوم يقسم الدم على ساعات اللبس وعن أبي يوسف : يطعم عنه نصف صاع من بر."
(کتاب الحج ، ج : 3 ، ص : 577 ، ط: رشیدیة)
البحر الرائق میں ہے :
"ولأن المرأة لا تغطي وجهها إجماعا مع أنها عورة مستورة وفي كشفه فتنة فلأن لا يغطي الرجل وجهه للإحرام أولى."
(کتاب الحج ، باب الاحرام ، لبس القميص والسراويل والعمامة والقلنسوة والقباء والخفين للمحرم ، ج : 2 ، ص : 349 ، ط : دار الکتاب الاسلامی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102425
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن