میری شادی 2021 میں ہوئی تھی ، میری ازواجی زندگی میں شروع ہی سے سکون نہیں تھا ، کسی نہ کسی بات پر لڑائی جھگڑے رہے ہیں، میں نےہر طرح نبھانے کی کوشش کی، دو تین مرتبہ مجھے میرے والدین کے گھر بھیجا گیا، اب جب کہ میں دوبارہ حاملہ ہوئی ہوں، تو میرے شوہر نے مجھے بہت لڑائی اور الزمات کے بعد ایک طلاق صریح دی ان الفاظ میں ( میں تیرے کو طلاق دیتا ہوں) اور دو طلاقیں بھجوانے کا کہا ،اب میں والدین کے گھر آئی ہوں ،آپ فتوی دیجیے کہ میری عدت کب سے کب تک ہے؟ اور باقی د و طلاقیں کب واقع ہوں گی ،جب کہ نہ میرے شوہر نے رجوع کیا او رنہ میں رجوع کرنا چاہتی ہوں ،ہا ں اگر و ہ میری شرائط مان لیتا ہے اور مجھے عزت سے رکھتاہے،تو میں رجوع کرنے کےلیے تیارہوں ۔برائے مہربانی مسئلے کا حل بتائیں تاکہ دوسرے فریقین کو بھی آگاہ کرسکیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں اس سے سائلہ پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے،سائلہ کی عدت وضع حمل (یعنی بچہ جننےتک )ہے ،جیسے ہی وضع حمل ہوجائے تو عدت پوری ہوجائے گی ،عدت پوری ہونے سے پہلے پہلے شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے خواہ سائلہ راضی ہو یا نہ ہو، البتہ عدت پوری ہونے کے بعدعورت بائنہ ہوجائے گی، اس کے بعد سائلہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزا د ہوگی ،پھراگر دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو دوبارہ نئے سرے سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا پڑے گا، البتہ آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔
باقی شوہر نے دو طلاقیں بھجوانےکی دھمکی دی تھی اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی، ہاں اگر وہ دھمکی پر عدت کے دوران عمل کرلے اور تحریر ی یازبانی طلاق دے دے گا تو طلاق واقع ہوجائے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
(و ينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة و بعدها بالإجماع) و منع غيره فيها لاشتباه النسب".
(رد المحتار، کتاب الطلاق، ج:3، ص:409، ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.
(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".
(رد المحتار ،کتاب الطلاق،ج:3ص: 397،ط:سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144512101150
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن