بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حالت جنابت میں قصداً کئی بار نماز پڑھانے کی صورت میں تلافی کا طریقہ


سوال

(1)اگر کسی آدمی نے جنابت کی حالت میں کئی بار قصداً امامت کی، دوسروں کو کئی بار  جماعت کی نماز پڑھائی ، تو اس شخص کا کیا حکم ہے؟

(2)مذکورہ شخص چاہتا ہےکہ اس کی تلافی کروں، تو تلافی کی کیا صورت ہوگی؟جبکہ جن لوگوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھی ہے، ان سب کو پانا بھی ناممکن ہے۔

جواب

(1)صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے استخفافاً حالت جنابت میں نمازیں  پڑھائی ہوں ، تو مذکورہ شخص مسلمان نہیں رہا، اس پر لازم ہے کہ تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرے، اگر محض سستی اور لاپراوہی کی بناء پر  حالت جنابت میں نمازیں پڑھائی ہوں ، تو مذکورہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا، اس  پر  صدق ِ دل سےتوبہ و استغفار  ،  ان نمازوں کا اعادہ کرنا اور جن لوگوں نے اس کی اقتداء میں مذکورہ نمازیں پڑھیں ان کو لوٹانے کے لئے حتی الامکان آگاہ کرنا بھی لازم ہے، آئندہ اس قسم کی حرکت سے مکمل پرہیز کریں۔

(2)حالت جنابت میں پڑھائی ہوئی نمازوں کا اعادہ مذکورہ شخص اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے والوں پر لازم ہے،مذکورہ شخص حتی الوسع سب کو اطلاع دینے کی کوشش کرے کہ  جس جس نے فلاں فلاں نماز میرے پیچھے پڑھی ہے، وہ  ان نمازوں کا اعادہ کرلیں ۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وإذا ظهر حدث إمامه) وكذا كل مفسد في رأي مقتد (بطلت فيلزم إعادتها) لتضمنها صلاة المؤتم صحة وفسادا (كما يلزم الإمام إخبار القوم إذا أمهم وهو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو ركن. وهل عليهم إعادتها إن عدلا، نعم وإلا ندبت، وقيل لا لفسقه باعترافه؛ ولو زعم أنه كافر لم يقبل منه لأن الصلاة دليل الإسلام وأجبر عليه (بالقدر الممكن) بلسانه أو (بكتاب أو رسول على الأصح) لو معينين وإلا لا يلزمه بحر عن المعراج وصحح في مجمع الفتاوى عدمه مطلقا لكونه عن خطأ معفو عنه، لكن الشروح مرجحة على الفتاوى."

"(قوله بالقدر الممكن) متعلق بإخبار، وقوله على الأصح متعلق بيلزم (قوله لو معينين) أي معلومين. وقال ح: وإن تعين بعضهم لزمه إخباره (قوله وإلا) أي وإن لم يكونوا معينين كلهم أو بعضهم لا يلزمه (قوله وصحح في مجمع الفتاوى) وكذا صححه الزاهدي في القنية والحاوي وقال وإليه أشار أبو يوسف (قوله مطلقا) أي سواء كان الفساد مختلفا فيه أو متفقا عليه، كما في القنية والحاوي فافهم (قوله لكونه عن خطأ معفو عنه) أي لأنه لم يتعمد ذلك فصلاته غير صحيحة ويلزمه فعلها ثانيا لعلمه بالمفسد.وأما صلاتهم فإنها وإن لم تصح أيضا، لكن لا يلزمهم إعادتها لعدم علمهم ولا يلزمه إخبارهم لعدم تعمده فافهم (قوله لكن الشروح إلخ) أي كالمعراج فإنه شرح الهداية، ونقله في البحر أيضا عن المجتبى شرح القدوري للزاهدي تأمل."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامة، ج: 1، ص: 592/591، ط: ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)

وفیہ ایضاً:

"قلت: وبه ظهر أن تعمد الصلاة بلا طهر غير مكفر كصلاته لغير القبلة أو مع ثوب نجس، وهو ظاهر المذهب كما في الخانية."

(قوله: غير مكفر) أشار به إلى الرد على بعض المشايخ، حيث قال المختار أنه يكفر بالصلاة بغير طهارة لا بالصلاة بالثوب النجس وإلى غير القبلة لجواز الأخيرتين حالة العذر بخلاف الأولى فإنه لا يؤتى بها بحال فيكفر. قال الصدر الشهيد: وبه نأخذ ذكره في الخلاصة والذخيرة، وبحث فيه في الحلية بوجهين: أحدهما ما أشار إليه الشارح. ثانيهما أن الجواز بعذر لا يؤثر في عدم الإكفار بلا عذر؛ لأن الموجب للإكفار في هذه المسائل هو الاستهانة، فحيث ثبتت الاستهانة في الكل تساوى الكل في الإكفار، وحيث انتفت منها تساوت في عدمه، وذلك لأنه ليس حكم الفرض لزوم الكفر بتركه، وإلا كان كل تارك لفرض كافرا، وإنما حكمه لزوم الكفر بجحده بلا شبهة دارئة اهـ ملخصا: أي والاستخفاف في حكم الجحود.

(قوله: كما في الخانية) حيث قال بعد ذكره الخلاف في مسألة الصلاة بلا طهارة وأن الإكفار رواية النوادر. وفي ظاهر الرواية لا يكون كفرا، وإنما اختلفوا إذا صلى لا على وجه الاستخفاف بالدين، فإن كان وجه الاستخفاف ينبغي أن يكون كفرا عند الكل. اهـ.

أقول: وهذا مؤيد لما بحثه في الحلية لكن بعد اعتبار كونه مستخفا ومستهينا بالدين كما علمت من كلام الخانية، وهو بمعنى الاستهزاء والسخرية به، أما لو كان بمعنى عد ذلك الفعل خفيفا وهينا من غير استهزاء ولا سخرية، بل لمجرد الكسل أو الجهل فينبغي أن لا يكون كفرا عند الكل تأمل.

(کتاب الطھارة، ج:1، ص: 81، ط: ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)

النبراس شرح شرح العقائد النسفیة میں ہے:

"(وكذا إذا صلى لغير القبلة ) بلا ضرورة ولا نافلة سفر { أو بغير الطهارة متعمدا يكفر } لأنه استخفاف بعبادة الحق سبحانه { وإن وافق ذلك } أي: صلاته { القبلة} لأن الأعمال بالنية.ثم كفر المصلي إلى غير الكعبة منصوص عن الإمام أبي حنيفة رحمه الله، وقال ركن الإسلام علي السعدي : لا يكفر، وكلام شمس الأئمة الحلواني يدل على أنه يكفر إن فعل استهزاء واستخفافًا. وأما كفر المصلي بغير الطهارة وهو مختار الفقيه أبي الليث والصدر الشهيد، وقال الحلواني: لا يكفر، وقال بعض المشايخ من أحدث في صلاته واستحيا ومضى في صلاته لم يكفر، ولكن يجب ألا يقصد ركوعًا ولا سجودا. وأما الصلاة في ثوب نجس فكفر عند أبي الليث، لا عند علي السعدي."

( المسائل المتفرقة، ص: 734/733، ط: مكتبة ياسين تركيا)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

سوال: زید چند مبلغین کے ساتھ کسی گاؤں میں بغرض تبلیغ گیا، رات اس بستی میں قیام رہا ، اتفا قازید کو احتلام ہو گیا،  وہاں سے قبل طلوع صبح کے قیام گاہ کی طرف سب لوگ روانہ ہوئے ، راستہ میں ایک مسجد ملی جس میں نہ کوئی غسل خانہ ، نہ غسل کرنے کا کوئی انتظام، صرف سقاوہ میں وضو کرنے کے لئے پانی موجود تھا، سب لوگوں نے نماز فجر ادا کی،  زید نے بھی بحالت حدث اکبر ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور شرم کی وجہ سے اپنے محتلم ہونے کو ظاہر نہیں کیا اور اگر نماز نہ پڑھتا تو سب لوگ اس کے محدث ہونے کو جان لیتے اور زید کو معلوم تھا کہ یہ نماز نہیں ہو گی بلکہ پڑھنے کے وقت قصد کر لیا تھا کہ مکان پر پہنچ کر غسل کر کے نماز ادا کروں گا ، تو صورت مسئولہ میں زید کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کی ضرورت ہے یا نہیں ، از روئے شرع شریف کتب معتبرہ سے جواب مدلل کر کے تحریر فرمادیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔

جواب:صورت مسئولہ میں زید بدستور مسلمان اور اس کا نکاح بد ستور قائم ہے اس کو اپنے فعل پر توبہ کرنی چاہئے ، اس پر لازم ہے کہ کبھی ایسی حرکت کا ارتکاب نہ کرے ، اس میں اہانت دین اور استخفاف ارکان اسلام کا مشتبہ ہو سکتا ہے ، بہر حال معتمد اس صورت میں عدم تکفیر ہی ہے ، کما فی الشامي و المعتمد عدم التكفير كما هو ظاهر المذهب ، فقط واللہ اعلم ۔

(کتاب السیر، باب: احکام مرتد،  ج:12، ص: 247، ط:دار الاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102806

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں