بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ احرام میں انڈر ویئرپہننا،حرم میں نمازی کے سامنے سے گزرنا


سوال

۱۔احرام کی حالت میں اگر انڈر وئیردو یا تین گھنٹے کے لیےپہن لی جائے تو صرف صدقہ لازم ہوگایا دم؟اسی طرح حج کے ایام میں بارہ گھنٹے سے کم وقت کے لیے اگرانڈر وئیر پہنی پھر اتاری پھر پہنی تو کیا  دم لازم ہوگا؟یعنی عمرے میں طواف کے دوران انڈر وئیر پہن لی پھر سعی میں اتار دی تو کیا لازم ہوگا؟اسی طرح حج کے پانچ دن میں چھ گھنٹے پہنی ،پھر دو گھنٹے نہ پہنی پھر تین گھنٹےپہنی ،اسی طرح کل بارہ گھنٹے مسلسل انڈر وئیر   نہ پہنی تو صدقہ لازم ہوگایا دم؟

۲۔حرم میں نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے ؟مکہ مدینہ میں عموماً رش ہوتاہے۔

۳۔طواف میں اگر کوئی شخص حجرِاسود سے پہلے ابتداء کرے تو کیاحکم ہے؟کیوں کہ حجرِاسود کاتعین مشکل ہوتاہے،اگر حجرِاسود کے عین سے آگے نکل گیاتو طواف کا چکر معتبر نہیں ہے؛اس لیے اگر حجرِاسود کے پیچھے سے طواف کی ابتداء کی جائے تاکہ چکر ناقص نہ رہے تو کیا حکم ہے؟

۴۔حجِ بدل میں تمتع کرنے کی صورت میں عمرےاور حج کااحرام باندھتے وقت کیانیت کرے؟نیت کے الفاظ کیاہوں گے؟

جواب

۱۔واضح رہے کہ مرد کے لیے احرام کی حالت میں سلا ہوا کپڑا استعمال کرنا ممنوع ہے، جس کی وجہ سے حالتِ احرام میں انڈر ویئر بنیان وغیرہ پہننے کی اجازت نہیں۔  تاہم اگر بواسیر یا ہرنیہ یا اس قسم کے کسی مرض کی شکایت ہو  تو بھی بہتر ہے کہ لنگوٹ وغیرہ باندھ لے، لیکن اگر پھر بھی انڈر ویئر پہننا مجبوری ہو تو پہن سکتا ہے، البتہ ایک رات یا ایک دن یا اس سے زیادہ مدت تک انڈر ویئر پہننے کی صورت میں ایک دم دینا لازم ہوگا، اور اس سے کم میں صدقہ دینا لازم ہوگااور صدقہ کی مقدار صدقۂ فطر کے برابر ہے،صورتِ مسئولہ میں جو صورتیں لکھی گئی ہیں ان میں صدقہ ہے دم نہیں ہے؛کیوں کہ وہ ایک دن یاایک رات سے کم ہے۔

۲۔چھوٹی مساجد میں نمازی کے سامنے سے گزرنا جائز نہیں ، بڑی مساجد میں  نمازی کے مقام سے دو صفوں  کے فاصلے سے گزرنا جائز ہے، نیز مسجد حرام میں  طوا ف کرنے والے  نمازی کی سجدہ گاہ کو چھوڑ کر گزر سکتےہیں؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں  مسجد حرام یامسجد نبوی جو کہ بڑی مساجد میں سے ہیں،ان مساجد میں نمازی کے سامنے سے نمازی کی جگہ سے دوصفوں کے فاصلےسے گزرنا جائز ہے، البتہ اگر شدید مجبوری کی حالت ہو تو اس میں بھی کھلے عام نمازی کے سجدے کی جگہ کے اندر سے گذرنے سے حتی الامکان اجتناب کرنا چاہیے بلکہ اس صورت میں نمازی کے آگے کسی رومال، کپڑے یا چھڑی وغیرہ سے یا کسی دوسرے شخص کو آگے کر کے سترہ بنا کر گذرنا چاہیے۔

۳۔طواف کی ابتداء حجرِاسود سے کرناضروری ہے،اگر کسی نے طواف کی ابتداء حجر ِاسود سے نہیں کی تو مکہ مکرمہ کے قیام کے دوران دوبارہ طواف کرنا واجب ہے؛لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر احتیاطاً طواف کا چکر حجرِاسود سے پہلے شروع کرلے تو جائز ہے،البتہ استلام  حجرِاسود کے محاذات میں ہونا سنت ہے۔

۴۔ حج بدل کی نیت میں احرام کے وقت حج کی نیت  اس طرح کرےجس کے الفاظ یہ ہوں: ’’میں فلاں شخص کی طرف سے حجِ تمتع   کی نیت کرتاہوں اور اس کی طرف سے احرام باندھتاہوں ‘‘اور اگر نام بھول جائے تو یہ کہے ’’ جس کی طر ف سے مجھے حج بدل  کے لیے بھیجا گیا ہے میں اس کی طرف سے حج ِ تمتع  کی نیت کرتاہوں اوراس کی طرف سے احرام باندھتاہوں ‘‘،اسی طرح عمرہ کا احرام باندھتے ہوئے ان الفاظ سے نیت کرے:’’میں فلاں شخص کی طرف سے عمرہ کرنے کی نیت کرتاہو ں اور اس کی طرف سے احرام باندھتاہوں ‘‘۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالمحرم لايلبس المخيط جملة".

(كتاب الحج ،فصل محظورات الإحرام،ج:2،ص:183،ط:رشيدية)

فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

"ولو اضطر المحرم إلى لبس ثوب فلبس ثوبين فإن لبسهما على موضع الضرورة فعليه كفارة واحدة وهي كفارة الضرورة .....ولو لبس ثوبا للضرورة ثم زالت الضرورة فداوم على ذلك يوما أو يومين فما دام في شك من زوال الضرورة لا يجب عليه  إلا كفارة الضرورة، وإن تيقن بزوال الضرورة فعليه كفارتان كفارة ضرورة وكفارة اختيار هكذا في البدائع".

(كتاب المناسك ،الباب الثامن في الجنايات وفيه خمسة فصول،الفصل الثاني في اللبس،ج:1،ص:242،ط:ماجدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"ذكر في حاشية المدني لا يمنع المار داخل الكعبة وخلف المقام وحاشية المطاف، لما روى أحمد وأبو داود عن «المطلب بن أبي وداعة أنه رأى النبي - صلى الله عليه وسلم - يصلي مما يلي باب بني سهم والناس يمرون بين يديه وليس بينهما سترة» وهو محمول على الطائفين فيما يظهر لأن الطواف صلاة، فصار كمن بين يديه صفوف من المصلين انتهى".

(كتاب الصلاة ،باب الاستخلاف،فروع مشى المصلي مستقبل القبلة هل تفسد صلاته،ج:1،ص:635)

فتاوٰی شامی  میں ہے:

" (أو) مروره (بين يديه) إلى حائط القبلة (في) بيت و (مسجد) صغير، فإنه كبقعة واحدة (مطلقاً) ..."الخ

قال ابن عابدين رحمه الله: " (قوله: في بيت) ظاهره ولو كبيراً. وفي القهستاني: وينبغي أن يدخل فيه أي في حكم المسجد الصغير الدار والبيت. (قوله: ومسجد صغير) هو أقل من ستين ذراعاً، وقيل: من أربعين، وهو المختار، كما أشار إليه في الجواهر، قهستاني". 

(كتاب الصلاة ،باب الاستخلاف،فروع مشى المصلي مستقبل القبلة هل تفسد صلاته،ج:1،ص:634)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(وأخذ) الطائف (عن يمينه مما يلي الباب) فتصير الكعبة عن يساره لأن الطائف كالمؤتم بها والواحد يقف عن يمين الإمام، ولو عكس أعاد مادام بمكة فلو رجع فعليه دم وكذا لو ابتدأ من غير الحجر كما مر قالوا ويمر بجميع بدنه على جميع الحجر (جاعلا) قبل شروعه.

وفي الرد:(قوله وكذا لو ابتدأ من غير الحجر) أي يعيده وإلا فعليه دم وهذا على القول بوجوبه كما أشار إليه بقوله كما مر أي في الواجبات (قوله قالوا إلخ) قال في البحر: ولما كان الابتداء من الحجر واجبا كان الابتداء في الطواف من الجهة التي فيها الركن اليماني قريبا من الحجر الأسود متعينا، ليكون مارا بجميع بدنه على جميع الحجر الأسود، وكثير من العوام شاهدناهم يبتدئون الطواف وبعض الحجر خارج عن طوافهم فاحذره اهـ".

(كتاب الحج، فصل في الإحرام وصفة المفرد،ج:2،ص:494،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"(و) بشرط (نية الحج عنه) أي عن الآمر فيقول: أحرمت عن فلان ولبيت عن فلان، ــ ولو نسي اسمه فنوى عن الآمر صح، وتكفي نية القلب."

(كتاب الحج،باب الحج عن الغير، ج:2،ص:598،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310101231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں