بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ہم جنس پرستی کا حکم/اس کو حلال سمجھنے والے اورایسے شخص کی امامت کا حکم


سوال

1- ہم جنس پرستی کا کیا حکم ہے؟

2- اگر کوئی اس کو جائز سمجھے تو کیا وہ مسلمان رہے گا؟

3-ایسے شخص کی امامت کا کیا حکم ہے؟

جواب

اللہ رب العزت نےمرد و عورت دونوں  کے اندر خواہش کا مادہ رکھا ہے اور شہوت کی تسکین کا حلال   و فطری طریقہ نکاح ہے، نہ کہ ہم جنس پرستی کہ جس میں مرد مرد کے ذریعہ یا عورت عورت کے ذریعہ اپنی خواہش پوری کرے،یہ عمل خواہ کسی کے ساتھ بھی ہو،  چاہے  رضامندی سے ہو یا جبری ہو، عقلاً، طبعًا، شرعًا انتہائی شنیع اور قبیح عمل ہے، اس کی حرمت اور مذمت قرآن پاک کی کئی آیات اور احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئی ہے۔ مثلاً:  سورۂ اعراف کی ایک آیت مبارکہ میں اسے "فاحشہ" سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کی تفسیر میں مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ یہ (غیر محل میں شہوت پوری کرنے کے اعتبار سے) زنا کی طرح ہے۔

نیز بعض احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں پر لعنت کی ہے، ان میں سے لواطت کرنے والے بھی ہیں،  اسی طرح  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا  ارشاد ہے کہ  اللہ اس شخص پر نظر نہیں فرماتا جو کسی مرد یا عورت کے پاخانہ کے راستہ سے آئے۔

ہم جنس پرستی  سے طبائعِ سلیمہ نفرت کرتی ہیں، کیوں کہ  یہ انسانی فطرتِ کےخلاف  ہے اور زنا سے زیادہ خطرناک، شدید اور بدترين  جرم ہے،اس لیے اس کی سزا بھی زنا سے زیادہ سخت  اور شدید ہے،   سابقہ امتوں میں سے حضرت لوط علیہ السلام کی امت پر اسی عمل کی وجہ سے عذاب آیا تھا، ان کی بستی کو اوپر اٹھا کر زمین پر الٹ کر پتھروں کی بارش برسائی گئی تھی،  جس سے پوری قو م ہلاک ہوگئی تھی۔

شریعت میں اس کے لیے ”حد“ مقرر نہیں ہے، بل کہ یہ حاکمِ وقت کی صواب دید پر ہے  کہ اگر کوئی اس عمل میں  مبتلا  ہے تو  حاکم وقت کے پاس شرعی طریقہ سے جرم ثابت ہونے کے بعد، اس جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے جو سزا تجویز کرنا  مناسب سمجھے وہ سزا تجویز کردے، مثلا:قید  میں ڈال دے، کوڑے لگائے یا قتل کردے وغیرہ۔

یہاں تک کہ  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ  ایسے شخص کو پہاڑ سے نیچے گراکراس پر پتھر برسائے جائیں؛ اس  لیے کہ اللہ تعالی نے اس عمل میں مبتلاقوم کو یہی سزا دی تھی ، یا اس کے علاوہ  جو سخت سے سخت سزا دینا چاہے دےسکتاہے، کیوں کہ ایسے مجرم کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف قسم کی سزائیں ثابت ہیں۔

نیز ان سزاؤں کو  جاری کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے، ہر آدمی کو اجازت نہیں؛ کیوں کہ اگر ہر کس و نا کس کو اس کی اجازت دے دی جائے تو ریاست میں انتشار اور بدامنی پیدا ہو جائے گی؛ لہذا حکومتِ وقت اگر سزائیں جاری نہ کرے تو کسی دوسرے شخص کو اس کی اجازت نہ ہو گی۔

لہٰذ اس فعل سے فوری توبہ کرنا ضروری ہے، کیوں کہ  اس عمل کی اخروی سزا بھی بہت سخت ہے کہ کل قیامت کے دن جب ہر شخص اللہ تعالی کے رحم وکرم کابہت زیادہ محتاج ہوگا، وہاں یہ شخص اللہ تعالی کی  رحمت سے محروم ہوگا۔

جس عمل کا  گناہ ہونا اور حرام ہونا قطعی دلیل سے ثابت ہو، اس کو حلال اور جائز سمجھنا کفر ہے، لہذا  اگر کوئی ہم جنس پرستی کو جائز و حلال سمجھے گا تو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا،  اس پر توبہ واستغفار کے ساتھ ساتھ تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح بھی لازم ہوگا،نیز ایسے شخص کی امامت درست نہیں ہے۔

چناں چہ قرآن کریم میں ہے:

‌وَلُوطاً ‌إِذْ ‌قالَ ‌لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِها مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعالَمِينَ[الآية: 80]

ترجمہ: اور (ہم نے) لوط (علیہ السلام) کو (بھیجا) جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا "۔(بیان القرآن)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"(أتأتون الفاحشة) يعني ‌إتيان ‌الذكور. ذكرها الله باسم الفاحشة ليبين أنها زنى".

(‌‌تفسير سورة الأعراف‌‌، الآية: 80، ج:7، ص:243، ط: دار الكتب المصرية)

المعجم الأوسط للطبرانی میں ہے:

1086 - "حدثنا أحمد قال: حدثنا أبو جعفر النفيلي قال: نا عباد بن كثير الرملي قال: نا عروة بن رويم، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا استحلت أمتي ستا فعليهم الدمار: إذا ظهر فيهم التلاعن، وشربوا الخمور، ولبسوا الحرير، واتخذوا القيان، ‌واكتفى ‌الرجال ‌بالرجال، والنساء بالنساء".

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جب میری امت چھ  چیزوں کو حلال سمجھنے لگے گی تو ان پر تباہی نازل ہو گی جب ان میں باہمی لعن طعن عام ہو جائے، مرد ریشمی لباس پہنے لگیں، گانے بجانے اور ناچنے والی عورتیں رکھنے لگیں، شرابیں پینے لگیں اور مرد مردوں سے اور عورتیں عورتوں سے جنسی تسکین پر کفایت کرنے لگیں۔ 

(باب الألف، ‌‌من اسمه أحمد، ج:2، ص:17، ط: دار الحرمين)

شعب الإیمان للبیہقی میں ہے:

5467 - "أخبرنا أبو الحسن علي بن إبراهيم الهاشمي ببغداد ثنا أبو جعفر محمد بن عمرو الرزاز ثنا محمد بن غالب بن حرب ثنا عمرو بن الحصين النميري ثنا الفضل بن عميرة ثنا ثابت عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:إذا استعملت امتي خمسا فعليهم الدمار: إذا ظهر فيهم التلاعن ولبس الحرير واتخذوا [القينات] وشربوا الخمور ‌واكتفى ‌الرجال ‌بالرجال والنساء بالنساء".

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جب میری امت پانچ چیزوں کو حلال سمجھنے لگے گی تو ان پر تباہی نازل ہو گی جب ان میں باہمی لعن طعن عام ہو جائے، مرد ریشمی لباس پہنے لگیں، گانے بجانے اور ناچنے والی عورتیں رکھنے لگیں، شرابیں پینے لگیں اور مرد مردوں سے اور عورتیں عورتوں سے جنسی تسکین پر کفایت کرنے لگیں۔ 

(السابع والثلاثون من شعب الإيمان وهو باب في تحريم الفروج وما يجب من التعفف عنها، ج:4، ص:377، ط: دار الكتب العلمية)

سنن الترمذی میں ہے:

1456 - "حدثنا محمد بن عمرو السواق قال: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن عمرو بن أبي عمرو، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من وجدتموه يعمل عمل ‌قوم ‌لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول به".

ترجمہ: " حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم کسی کو لوط علیہ السلام کی قوم کا عمل کرتے ہوئے دیکھو تو فاعل و مفعول کو قتل کردو"۔

(أبواب الحدود، ‌‌باب ما جاء في حد اللوطي، ج:4، ص:57، ط: مصطفى البابي الحلبي)

وفیہ أیضاً:

1165 - "حدثنا أبو سعيد الأشج، قال: حدثنا أبو خالد الأحمر، عن الضحاك بن عثمان، عن مخرمة بن سليمان، عن كريب، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ينظر الله إلى رجل ‌أتى ‌رجلا أو امرأة في الدبر".

ترجمہ: " حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس شخص پر نظر نہیں فرماتا جو کسی مرد یا عورت کے پاخانہ کے راستہ سے آئے"۔

(أبواب الرضاع، ‌‌باب ما جاء في كراهية إتيان النساء في أدبارهن، ج:3، ص:461، ط: مصطفى البابي الحلبي)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب استحلال المعصية القطعية كفر

لكن في شرح العقائد النسفية: استحلال المعصية كفر إذا ثبت كونها معصية بدليل قطعي، وعلى هذا تفرع ما ذكر في الفتاوى من أنه إذا اعتقد الحرام حلالا، فإن كان حرمته لعينه وقد ثبت بدليل قطعي يكفر وإلا فلا بأن تكون حرمته لغيره أو ثبت بدليل ظني. وبعضهم لم يفرق بين الحرام لعينه ولغيره وقال من استحل حراما قد علم في دين النبي عليه الصلاة والسلام تحريمه كنكاح المحارم فكافر. اهـ. قال شارحه المحقق ابن الغرس وهو التحقيق. وفائدة الخلاف تظهر في أكل مال الغير ظلما فإنه يكفر مستحله على أحد القولين. اهـ. وحاصله أن شرط الكفر على القول الأول شيئان: قطعية الدليل، وكونه حراما لعينه. وعلى الثاني يشترط الشرط الأول فقط وعلمت ترجيحه، وما في البزازية مبني عليه".

(كتاب الزكاة، ‌‌باب زكاة الغنم، ج:2، ص:292، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"(أو) بوطء (دبر) وقالا: إن فعل في الأجانب حد. وإن في عبده أو أمته أو زوجته فلا حد إجماعا بل يعزر. قال في الدرر بنحو الإحراق بالنار وهدم الجدار والتنكيس من محل مرتفع باتباع الأحجار. وفي الحاوي والجلد أصح وفي الفتح يعزر ويسجن حتى يموت أو يتوب؛ ولو اعتاد اللواطة قتله الإمام سياسة.قلت: وفي النهر معزيا للبحر: التقييد بالإمام يفهم أن القاضي ليس له الحكم بالسياسة".

"مطلب في ‌حكم ‌اللواطة

(قوله بنحو الإحراق إلخ) متعلق بقوله يعزر. وعبارة الدرر: فعند أبي حنيفة يعزر بأمثال هذه الأمور. واعترضه في النهر بأن الذي ذكره غيره تقييد قتله بما إذا اعتاد ذلك. قال في الزيادات: والرأي إلى الإمام فيما إذا اعتاد ذلك، إن شاء قتله، وإن شاء ضربه وحبسه. ثم نقل عبارة الفتح المذكورة في الشرح، وكذا اعترضه في الشرنبلالية بكلام الفتح. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة: ولا يحد عند الإمام إلا إذا تكرر فيقتل على المفتى به. اهـ. قال البيري: والظاهر أنه يقتل في المرة الثانية لصدق التكرار عليه. اهـ.

ثم ظاهر عبارة الشارح أنه يعزر بالإحراق ونحوه ولو في عبده ونحوه، وهو صريح ما في الفتح حيث قال: ولو فعل هذا بعبده أو أمته أو زوجته بنكاح صحيح أو فاسد لا يحد إجماعا كذا في الكافي، نعم فيه ما ذكرنا من التعزير والقتل لمن اعتاده (قوله والتنكيس إلخ) قال في الفتح: وكان مأخذ هذا أن قوم لوط أهلكوا بذلك حيث حملت قراهم ونكست بهم، ولا شك في اتباع الهدم بهم وهم نازلون (قوله وفي الحاوي) أي الحاوي القدسي.

وعبارته: وتكلموا في هذا التعزير من الجلد ورميه من أعلى موضع وحبسه في أنتن بقعة وغير ذلك سوى الإخصاء والجب والجلد أصح اهـ وسكت عليه في البحر والنهر فتأمل (قوله التقييد بالإمام إلخ) فيه كلام قدمناه قبل هذا الباب".

(كتاب الحدود، ‌‌باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه، ج:4، ص:27، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو وطئ امرأة في دبرها أو لاط بغلام لم يحد عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ويعزر ويودع في السجن حتى يتوب وعندهما يحد حد الزنا فيجلد إن لم يكن محصنا ويرجم إن كان محصنا، ولو فعل هذا بعبده أو أمته أو بزوجته بنكاح صحيح أو فاسد لا يحد إجماعا كذا في الكافي.ولو اعتاد ‌اللواطة قتله الإمام محصنا كان أو غير محصن كذا في فتح القدير".

(كتاب الحدود، ‌‌الباب الرابع في الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه، ج:2، ص:150، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603100569

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں