بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا ہم نے چھوڑ دیا ہے کہنے سے طلاق حکم


سوال

میری بیٹی کی شادی میرےبھتیجےکےساتھ ہوئی ہے،اس کی ایک بچی بھی ہے،شادی کےچھ ،سات ماہ بعدمیرےبھتیجےنےدوسری شادی کی ،بیٹی کےپیدائش کےتین ماہ بعد میرےبھتیجےنےمیری بیٹی کوہمارےگھرچھوڑا،پھراس کےبعدکوئی رابطہ نہیں کیا،پھرچارپانچ ماہ بعدمیں نےاپنےبھائی کوفون کرکےکہاکہ میری بیٹی کاکیامسئلہ ہےکہ آپ  نے اس کو  یہاں چھوڑدیاہے؟ہم مل کربیٹھتےہیں؛تاکہ کوئی ایک فیصلہ ہوسکے،جب ہم سب مل کربیٹھےتوکوئی فیصلہ نہ ہوسکا،پھرمیں نےکہا بھائی کوئی فیصلہ کرلو،یاتوطلاق دو،یااپنےپاس رکھ لو،اس پربھتیجےنےغصہ میں آکرکہا "ہم نےچھوڑدیاہے"، یہ الفاظ پانچ سےچھ مرتبہ کہے۔

1:اب پوچھنایہ ہےکہ ان الفاظ سےطلاق ہوئی ہےیانہیں ؟

2:نیزطلاق کی صورت میں یہ بچی کس کی پرورش میں رہےگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں تین سے زائد مرتبہ چھوڑ دیا کے الفاظ استعمال کرنے سے بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،نکاح ختم ہوچکا ہے ،بیوی اپنےشوہرپرحرمتِ مغلظہ کےساتھ حرام ہوچکی ہے،اب رجوع جائزنہیں ہے،نکاح ختم ہوچکاہےاوردوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا،بیوی اپنی عدت( تین ماہواری ،اگرحمل نہ ہو،اگرحمل ہو،توبچےکی پیدائش تک )گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

2: میاں بیوی کےدرمیان جدائیگی کےبعدبچی کی سب سےزیادہ حق داراس کی ماں ہے،جب تک اس کی عمر نو سال نہیں ہوجاتی ماں اسےاپنی پرورش میں رکھ سکتی ہے، بشرطیکہ وہ دوسری جگہ شادی نہ کرلے،اگر وہ بچی کے غیر محرم سے   شادی کرلے تو پرورش کا حق  بچی کی نانی کوحاصل ہوگا ، بہر صورت بچی کے نفقہ و دیگر اخراجات کی ذمہ داری باپ  پر ہوگی۔ 

النہرا لفائق میں ہے:

"(‌سرحتك) من السراح بفتح السين وهو الإرسال وفي (الخانية): أنت السراح كأنت خلية، (فارقتك) لأنهما لا يتعينان في النساء بل يقال سرحت إبلي وفارقت مالي وما لا يتعين يكون كناية كذا في (الشرح) وقد يقال: ليس الكلام في المطلق من التسريح والمفارقة بل في المضافين إليهما ولو قيل: إن ‌سرحتك بمنزلة أرسلتك لأني طلقتك أو لحاجة لي وكذا فارقتك لأني طلقتك أو في هذا المنزل فلم تمكثي فيه لاحتمل الطلاق وغيره وفي (المجتبي)ومشايخ خوارزم من المتقدمين والمتأخرين كانوا يفتون بأن لفظ التسريح بمنزلة الصريح يقع به الرجعي بلا نية."

(كتاب الطلاق، ‌‌فصل في الطلاق قبل الدخول، ج:2، ص:360، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف فارسية قوله ‌سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين ‌سرحتك فإن ‌سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي ‌سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق...وأما إذا تعورف استعماله في مجرد الطلاق لا بقيد كونه بائنا يتعين وقوع الرجعي به كما في فارسية ‌سرحتك ومثله ما قدمناه في أول باب الصريح من وقوع الرجعي بقوله " سن بوش " أو " بوش " أول في لغة الترك مع أن معناه العربي أنت خلية، وهو كناية لكنه غلب في لغة الترك استعماله في الطلاق، وهذا ما ظهر لفهمي القاصر."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:299، ط:دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي....والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين."

(كتاب الطلاق، باب الخضانة، ج:1، ص:542، ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144512100349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں