ہم میاں بیوی فیکٹری میں ایک ساتھ کام کرتے ہیں ، ہماری آپس میں کسی بات پر لڑائی ہوئی، اس پر میرے شوہر نے کہا کہ اگر میرے پاس مہر ہوتا تو میں تمہیں طلاق دے دیتا۔تو میں نے کہا کہ مجھے مہر نہیں چاہیے۔اس پر میرے شوہر نے یہ کہا :
میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں ۔
میں نے پہلی طلاق کا لفظ سنا تو بے ہوش ہوگئی ۔ پا س میں موجود دو لوگوں نے گواہی دی کہ تین بارطلاق کے الفاظ بولے ہیں ۔
نوٹ: میں حمل سے ہوں ، آخری ایام چل رہے ہیں، ہمیں اپنے کیے پر شرمندگی ہے ، ہم ساتھ رہنا چاہتے ہیں،اس کا کیا طریقہ ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کے شوہر نے سائلہ کو یہ الفاظ کہے ہیں کہ :"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں "،اور دو افراد اس کی گواہی بھی دے رہے ہیں ، تو ان الفاظ کی ادائیگی سے سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ا ور سائلہ اپنےشوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہیں، اب شوہر کے لیے رجوع یا تجدید نکاح کی شرعاًاجازت نہیں ،بلکہ عورت پر عدت گزارنا لازم ہے ۔ طلاق کے واقع ہونے کے بعد فوراً عورت کی عدت شروع ہوجاتی ہے ۔عورت کی عدت(اگر حمل نہ ہو تو )تین ماہواریاں ہیں، تین طلاقوں کے بعد جب تین ماہواریاں مکمل ہوجائیں یا حمل کی صورت میں بچے کی ولادت ہوجائے تو عورت کی عدت ختم ہوجائے گی،اور عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کی شرعاً اجازت ہوگی۔ البتہ تین طلاقوں کے بعد اگر کسی عورت کی عدت مکمل ہوجائے اور عدت مکمل ہونے کے بعد وہ دوسری جگہ نکاح کرلے اور دوسرا شوہر حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی رضامندی سے طلاق دے دے تو دوسرے شوہر کی بھی عدت گزارنے کے بعد عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی ، نیز دوسرے نکاح کے بعد دوسرا شوہر طلاق دینے یا نہ دینے کا مکمل اختیار رکھتا ہے ، اگر وہ طلاق نہ دے تو اسے مجبور نہیں کیاجاسکتا۔
ارشادِ ربانی ہے:
"{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}." (البقرة: 230)
ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی تو جب وہ عورت دوسرے سے نکاح نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ "(بیان القرآن)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وان کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ وثنتین فی الامة، لم تحل له حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا، ویدخل بها، ثم یطلقها او یموت عنها."
(الباب السادس فی الرجعۃ، فصل فیما تحل بہ المطلقۃ، کتاب الطلاق ص:ج:1،ص:473،ط:مکتبہ رشیدیہ)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر."
(کتاب الطلاق، باب في حکم الطلاق البائن،ج:3،ص:187، ط: دار الکتب العلمیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102244
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن