بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حمل ساقط کرانا


سوال

ہماری شادی جنوری 2023  میں ہوئی ہے اور جنوری 2024 کو اللہ پاک نے مجھے بیٹے کی نعمت سے نوازا،اب ہم دوسرے بچے میں ایک ،یادو سال کا وقفہ دینا چاہتے ہیں  کیونکہ  پہلا بچہ آپریشن کے ذریعے پیدا ہوا اس وجہ سے میری بیوی کا کیس بڑا ہے، اب اس کو حاملہ ہوئے تیسراہفتہ شروع ہو ا ہے۔ میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ اگرہم اس بچے کو نہیں رکھنا چاہتے(  یعنی حمل ساقط کرائیں)   توکیاہم پر گنا ہ ہوگا ، کیاہم اللہ کو ناراض کر د یں گے۔

جواب

واضح رہے کہ حمل ضائع کرنے کے بارے میں شرعی اصول یہ ہے  کہ اگر  حمل  چار  ماہ  سے  کم کا ہو،  اور  ماہر ڈاکٹر  یہ   کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے  ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت اس حمل کاتحمل نہیں کرپاۓ گی،  تو ان  جیسےاعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے    پہلے  (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی، البتہ چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاط حمل جائزنہیں ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کسی خاتون کے بہت زیادہ کمزور ہونے کی وجہ سےماں یابچےکی جان جانے کا اندیشہ ہو، اور ڈاکٹر کی رائے کے مطابق اسقاطِ حمل ضروری ہو، تو مذکورہ  اعذار کی بناء پر   حمل  میں روح پڑجانے سے پہلے پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)  حمل  کو ساقط کرناجائزہے۔البتہ خرچہ وغیرہ کے ڈر کی وجہ سے حمل ضائع کرانا  گناہ ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ویکره أن تسعی لإسقاط حملها، وجاز لعذر حیث لایتصور.... (قوله: ویکره الخ) أي مطلقًا قبل التصور و بعد علی ما اختاره في الخانیة کما قد مناه قبیل الا ستبراء، وقال: إلا أنّها لاتأثم إثم القتل. (قوله: وجاز لعذر) کالمرضعة إذا ظهربه الحبل وانقطع لبنها ولیس لأب الصبي ما یستأجر به الظئر وخاف هلاك الولد، قالوا: یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام الحمل مضغة أو علقة ولم یخلق له عضو، وقدروا تلك المدة بمائة وعشرین یوماً، وجاز؛ لأنّه لیس بآدمي، وفیه صیانة الآدمي، خانیة."

(كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغيره، فصل في البيع، فرع يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس، ج:6  ص:429 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں