ایک خاتون جو بہت غریب تھی اورشادی شدہ تھی ، شوہر کی غربت کی وجہ سے ایک مرد ان کی مدد بھی کیا کرتا تھا اور اس مرد سے اس عورت کی تعلقات بھی تھے اور اس مرد کے ساتھ اس عورت کی ہم بستری بھی ہوئی تھی، پھر جب اس کے شوہر نے اسے اپنی رضامندی سے تحریری طلاق دے دی، اس عورت نےعدت کے دوران مذکورہ مرد سے نکاح کرلیا تھا ، جب کہ وہ اس وقت حاملہ تھی تو آیا عدت کے دوران نکاح کرنا شرعًا کیسا ہے؟ اور اس بناء پر میاں بیوی پر شرعًا کوئی کفارہ ہے یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت کانکاح کے علاوہ کسی مردکے ساتھ نا جائز تعلق رکھنا اور اس سے جسمانی تعلق قائم کرنا شریعت میں بالکل نا جائز اور حرام ہے، جس کے بارے میں سخت وعید وارد ہوئی ہے،نیز مذکورہ عورت نے عدت کے دوران ( یعنی حمل کی حالت میں )مذکورہ مرد سے جو نکاح کیا تھا تو یہ نکاح شرعًا باطل ہے۔
لہذا عورت پر لازم ہےکہ فوری طور پر مذکورہ مرد کے ساتھ اپنے نا جائز تعلقات کو ختم کردے اور ہر قسم کا تعلق ختم کردے اور اس پر خوب توبہ و استغفار کرے،باقی ان پر شرعًاکوئی کفارہ نہیں ہے،بہر حال عورت کو دوسرے شخص سے نکاح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وضع حمل ہونے کےبعد عورت نئے سرے شرعی قواعدکے مطابق دوسرے مرد سے نکاح کرے۔
قرآن شریف میں ہے :
"الزانية والزاني فاجلدو كل واحد منهما مائة جلدة ، ولا تأخذكم بهما رأفة في دين الله إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر وليشهد عذابهما طائفة من المؤمنين (سورۃ النور آية:2)"
ترجمہ:"زنا کرانے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد کو ان میں سے ہر ایک کو سو درے مارو،اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہیئےاگر اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور دونوں کی سزا کےوقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہیئے"
(بيان القرآن، ج:2 ص: 559 ط: مكتبة رحمانية)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح۔۔۔وحبلى ثابت النسب لا يجوز نكاحها إجماعا."
(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير، ج: 1 ص: 280 ط: دار الفكر بيروت)
بدائع الصنائع ميں ہے:
"وأما أحكام العدة فمنها أنه لا يجوز للأجنبي نكاح المعتدة لقوله تعالى {ولا تعزموا عقدة النكاح حتى يبلغ الكتاب أجله} [البقرة: 235] قيل: أي لا تعزموا على عقدة النكاح، وقيل: أي لا تعقدوا عقد النكاح حتى ينقضي ما كتب الله عليها من العدة ولأن النكاح بعد الطلاق الرجعي قائم من كل وجه، وبعد الثلاث والبائن قائم من وجه حال قيام العدة لقيام بعض الآثار، والثابت من وجه كالثابت من كل وجه في باب الحرمات احتياطا."
(كتاب الطلاق، فصل في أحكام العدة، ج: 3 ص: 204 ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602100276
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن