ہمارے گھریلو مسئلےکی وجہ سےلڑائی ہوئی ،میرےسسرنےمیرےوالدپرہاتھ اٹھایا،اس پرمجھےشدیدغصہ آیااورغصہ میں میں نےاپنی بیوی کوایک ساتھ تین طلاقیں دیں کہ: میں طلاق دیتاہوں،میں طلاق دیتاہوں،میں طلاق دیتاہوں،میری بیوی حاملہ ہےاورمیں نےسناتھاکہ حمل والی عورت کوطلاق دینےسےطلاق واقع نہیں ہوتی ،اس وجہ سے مجھ سےیہ غلطی ہوئی اوراب میں افسردہ ہوں اورہم دوبارہ ساتھ رہناچاہتےہیں۔
1:اس حوالےسےمیری رہنمائی فرمائیں کہ میں نےایک ساتھ جوتین طلاقیں دیں وہ ایک شمارہوں گی یاتین؟
2:حضرت زبیررضی اللہ عنہ کایہ مسلک بیان کیاجاتاہےکہ:طلاق کےپیچھےطلاق واقع نہیں ہوتی، بلکہ ہرطلاق الگ الگ طہرمیں دینےکاکہاہے۔
3:نیزاگرطلاق واقع ہوچکی ہےتواس صورت میں اگربچہ پیداہوتاہےوہ کس کےساتھ رہےگا؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نےجوتین طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں،خواہ غصہ میں دی ہوں،اورخاتون حمل کی حالت میں ہوتب بھی مذکورہ تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اورنکاح ختم ہوچکاہے،بیوی شوہرپرحرمتِ مغلظہ کےساتھ حرام ہوچکی ہے،اب رجوع جائزنہیں ہے،نکاح ختم ہوچکاہےاور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا، بیوی اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،بچہ پیداہوتے ہی عدت مکمل ہوجائے گی۔
لہٰذااب دونوں کاساتھ رہناجائزنہیں ہے،یہاں تک کہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرےمردسےنکاح کرلےاوروہ شوہرحقِ زوجیت اداکرنےکےبعد طلاق یاخلع دےدےیااس کاانتقال ہوجائےتوعدت گزارکرسابقہ شوہرسےدوبارہ نکاح ہوسکتاہے۔
1:شوہرکایہ کہناکہ تین طلاقیں ایک کہلاتی ہیں شرعادرست نہیں ہے،تین طلاقیں تین ہی شمارہوتی ہیں۔
2:حضرت زبیررضی اللہ عنہ سےاس طرح کی بات ہمیں نہیں ملی،البتہ جمہور صحابہ وائمہ مجتہدین علیہم رضوان کااس پراجماع ہےکہ تین طلاقیں تین ہیں۔
3:میاں بیوی کےدرمیان جدائی ہوجانےکی صورت میں پیداہونےوالےبچےکےبارےمیں حکم یہ ہےکہ بچہ سات سال تک ماں کی پرورش میں رہےگا،اس کے بعد باپ اپنے پاس رکھ سکتاہےاوربچی نو سال عمر ہونے تک ماں کی پرورش میں رہےگی، نوسال عمر ہوجانےکےبعدبچی کوباپ اپنے پاس رکھ سکتاہے،اس دوران ساراخرچہ باپ کےذمہ ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا طلق امرأته وهي حبلى أو حائض أو طلقها ثلاثا قبل الدخول فقضى قاض ببطلان طلاق الحامل أو الحائض، وببطلان ما زاد على الواحدة كما هو مذهب البعض لا ينفذ قضاؤه، وكذا لو قضى ببطلان طلاق من طلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو في طهر جامعها فيه فقضاؤه باطل."
(كتاب أدب القاضي، الباب التاسع عشر في القضاء في المجتهدات، ج:3، ص:363، ط:دار الفكر)
فتح القدیرمیں ہے:
"(وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق۔۔۔(قوله وطلاق البدعة) ما خالف قسمي السنة، وذلك بإن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو مفرقة في طهر واحد أو ثنتين كذلك أو واحدة في الحيض أو في طهر قد جامعها فيه أو جامعها في الحيض الذي يليه هو، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا."
(كتاب الطلاق، باب طلاق السنة، ج: 3، ص: 468، ط:دار الفكر،بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."
(كتاب الطلاق، ركن الطلاق،ج:3،ص: 233، ط: دار الفكر،بيروت)
وفيه ايضا:
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.
وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى.
(قوله: وقدر بسبع) هو قريب من الأول بل عينه لأنه حينئذ يستنجي وحده، ألا ترى إلى ما يروى عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال "مروا صبيانكم إذا بلغوا سبعا" والأمر بما لا يكون إلا بعد القدرة على الطهارة زيلعي. (قوله: وبه يفتى) وقيل بتسع سنين. (قوله: لأنه الغالب) أي الاستغناء هو الغالب في هذا السن...وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع اهـ. وفي شرح المجمع: وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه...(قوله: أي تبلغ) وبلوغها إما بالحيض، أو الإنزال، أو السن ط. قال في البحر: لأنها بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر، وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ، والأب فيه أقوى وأهدى. (قوله: في ظاهر الرواية) مقابله رواية محمد الآتية...(قوله: وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:567، ط:دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604100226
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن