بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حمنہ نام رکھنے کا حکم


سوال

 حمنہ ایک صحابیہ کا نام ہے، لیکن سوال میرا یہ ہے کہ شاید حمنہ (رضی اللہ عنھا) نے حضرت امی عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنھا) پر تہمت لگائی تھی ،اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ قبول بھی کرلی، پر دل میں ایک خدشہ بھی ہے، تو کیا میں اپنی بیٹی کا نام تبدیل کروں  یا رہنے دو ں ؟میرے اس خدشہ کا جواب دیں۔

جواب

حضرت حمنہ رضی اللہ عنھا کو جب اللہ تعالیٰ نے،  اللہ کے رسولﷺنے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے معاف کردیا تھا ،تو آپ کو بھی اپنے ذہن سے یہ خدشہ نکال دینا چاہیے،اور  حمنہ صرف ان ہی  صحابیہ کا نام نہیں ہے،  بلکہ ان کے علاوہ ایک اور صحابیہ کانام بھی حمنہ ہے،لہذا آپ اپنی بیٹی کانام اس خدشے  کی وجہ سے تبدیل نہ کریں  ۔

اسد الغابہ میں ہے:

"حمنة بنت أبي سفيان بن حرب بن أمية."

(أسد الغابة في معرفة الصحابة ،ج:7، ص:72،ط:دار الكتب العلمية)

وفيه ايضاً:

"حمنة بنت جحش"وهي أخت زينب بنت جحش أم المؤمنين زوج النبي صلى الله عليه وسلم حمنة زوج مصعب بن عمير، فقتل عنها يوم أحد، فتزوجها طلحة بن عبيد الله، فولدت له محمدا وعمران ابني طلحة.وأمها أميمة بنت عبد المطلب، عمة رسول الله صلى الله عليه وسلم۔۔۔وكانت من المهاجرات وشهدت أحدا فكانت تسقي العطشى، وتحمل الجرحى وتداويهم روت عن النبي صلى الله عليه وسلم روى عنها ابنها عمران بن طلحة."

(أسد الغابة في معرفة الصحابة ،ج:7، ص:72،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101448

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں