بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہمشیرہ کی بیٹی کو گود لینے کا حکم


سوال

میرے چار بچے  ہیں ،ایک بیٹی  اور3بیٹے ہیں،  میں اپنی ہمشیرہ  سے ایک بیٹی گود لینا چاہتا ہوں، میرے لیے کیا حکم ہے؟

 

جواب

کسی کا بیٹا یا بیٹی کو گود لیناجائز ہے اور گود لینے والے کے لیے اس کی پرورش کرنا اور اس کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ دینےکا اجر وثواب ملے گا،تاہم اس بچے کی نسبت اس کے والدین کی طرف  کرنا لازم اور ضروری ہے؛  اس لیے کہ کسی کو منہ بولا بیٹا /بیٹی بنانے سے شرعاً وہ حقیقی بیٹا/بیٹی نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے اَحکام جاری ہوتے ہیں۔

صورت مسئولہ میں سائل کا اپنی ہمشیرہ کی بیٹی گود لینا شرعا جائز ہے،تاہم اس کی نسبت  اس کے حقیقی والدین کی طرف کرنا ضروری ہوگا،اور اس پر سائل کی حقیقی اولاد والے احکام جاری نہیں ہوں  گے،یعنی وراثت وغیرہ اس کا حصہ نہ ہوگا، نیز بلوغت کے بعد دیگر غیر محارم کی طرح سائل کے  بیٹوں سے بھی  پردہ کرنا  لازم ہوگا۔ 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ  ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا } ."[الأحزاب: 4، 5]

ترجمہ:’’ اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا، یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو ،یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔‘‘ (از بیان القرآن)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"قال: (‌ويستحق ‌الإرث ‌برحم ونكاح وولاء) أما الرحم والنكاح فبالكتاب والإجماع، وأما الولاء فلما يأتي إن شاء الله تعالى ... والولاء يورث به ولا يورث، قال - عليه الصلاة والسلام -: «الولاء لحمة كلحمة النسب لا يباع ولا يوهب ولا يورث» ، ويستحق بالعصوبة، وإليه الإشارة بقوله - عليه الصلاة والسلام -: «كنت أنت عصبة» ، وليس للنساء من الولاء شيء."

(كتاب الفرائض، ج:5، ص:86۔110، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے :

" أن الرجل كما يحرم عليه تزوج أصله أو فرعه كذلك يحرم على المرأة تزوج أصلها أو فرعها، وكما يحرم عليه تزوج بنت أخيه يحرم عليها تزوج ابن أخيها وهكذا، فيؤخذ في جانب المرأة نظير ما يؤخذ في جانب الرجل لا عينه وهذا معنى، قوله في المنح: كما يحرم على الرجل أن يتزوج بمن ذكر يحرم على المرأة أن تتزوج بنظير من ذكر ."

(کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات، ج:3، ص:29،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں