ایک شخص ہے، اس کا نام شناختی کارڈ میں حمز اللہ ہے اور عام طور پر لوگ اس کو ہمزلہ کے ساتھ پکارتے ہیں تو کیا یہ دونوں نام ٹھیک ہیں؟ تفصیل کے ساتھ ذکر کیجیے، ایک نام تو حنظلہ جو صحابی کا نام ہے اس نام کے بارے میں ہم سوال نہیں کرر ہے، صرف مذکورہ اوپر والے دو ناموں کے بارے سوال کرر ہے ہیں۔
"حمز" عربی زبان میں مصدر ہے، جس کے معنی ہیں: ’’چڑچڑا کر دینا، شدت اور مضبوطی، تکلیف دینا، تیز کرنا ، جلانا۔۔۔ وغیرہ‘‘۔ ان میں سے اکثر معانی کے اعتبار سے اس نام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف مناسب معلوم نہیں ہوتی۔بہتر یہ ہے کہ یہ نام بدل کر مذکورہ شخص کا کوئی اور نام رکھ دیا جائے۔صرف ’’حمزۃ‘‘ نام بھی رکھا جا سکتا ہے، جو کہ باعث برکت ہوگا۔
باقی لوگوں کا اس نام کو بگاڑ کر ’’ہمزلہ‘‘ کہنا بھی درست نہیں، کیونکہ وہ ایک بے معنیٰ لفظ ہے، بلکہ اچھے نام سے پکارنا چاہیے۔
العین میں ہے:
حمز: حمز اللوم فؤاده وقلبه أي: أوجعه، قال الشماخ بن ضرار:
فلما شراها فاضت العين عبرة … وفي الصدر حزاز من اللوم حامز
الحامز: الشديد من كل شيء. ورجل حامز الفؤاد: شديده.
وقال ابن عباس: أفضل الأشياء أحمزها،أي: أشدها وأمتنها."
(كتاب العين،حرف الحاء،باب الثلاثي الصحيح، باب الحاء والزاي والميم معهما، 3/ 168، الناشر: دار ومكتبة الهلال)
معجم دیوان الادب میں ہے:
ويقال: حمزَ الهمُّ قلبَه، أي: أَحرقه
قلت: والحمزة في الطعام: شبه اللذعة والحرارة كطعم الخردل.
وقال أبو حاتم: تغدى أعرابي مع قوم فاعتمد على الخردل، فقالوا: ما يعجبك منه؟ فقال: حمزة فيه وحراوة. قلت: وكذلك الشيء الحامض إذا لذع اللسان وقرصه فهو حامز، وقال في قول الشماخ:
وفي الصدر حزاز من اللوم حامز
أي ممض محرق. وقول ابن عباس: أحمزها، يريد أمضها وأشقها، والبقلة التي جناها أنس كان في طعمها لذع للسان فسميت البقلة حمزة لفعلها، وكني أنس أبا حمزة لجنيه إياها.
وقال اللحياني: كلمت فلانا بكلمة حمزت فؤاده أي قبضته وغمته فتقبض فؤاده من الغم. ورمانة حامزة: فيها حموضة.
شمر: قال ابن شميل: الحميز: الظريف. ورجل حميز الفؤاد أي صلب الفؤاد.
وقال الفراء: إشرب من نبيذك فإنه حموز لما تجد، أي يهضمه.
وفي لغة هذيل: الحمز: التحديد، يقال: حمز حديدته إذا حددها، وقد جاء ذلك في أشعارهم. وقال ابن السكيت: يقال: فلان أحمز أمرا من فلان إذا كان متقبض الأمر مشمره، ومنه اشتق حمزة، والحامز القابض."
(معجم ديوان الأدب، كتاب الأفعال من السالم ، باب فعل يفعل بفتح العين من الماضي، وكسرها من المستقبل،2/ 159،ط: مؤسسة دار الشعب، القاهرة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144605100121
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن