زید کی بیوی کسی گھریلو ناچاقی کی وجہ سے اپنے میکے چلی گئی تھی کچھ دن گزرکے کے بعد زید اپنے سسرال آیاجب کہ اس کی بیوی ابھی ابھی نماز سے فارغ ہوئی تھی اسی دوران زید نے اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑکر کھینچا اور کہا "چلو میرے ساتھ گھر "اس صورتحال کو دیکھ کر زیدکی ساس نے کہا "دیکھ نہیں رہےیہ نماز پرھ رہی ہے کیا تم مسلما ن نہیں ہو" تو جواباً زید نےکہا "ہاں میں مسلمان نہیں ہوں" اب سوال یہ ہے کہ زید کا مذکوریہ جملہ کہ "میں مسلمان نہیں ہوں" کیا زید کے ایمان پر اثر انداز ہوگا؟ اگر مذکورہ جملہ سے زید دائرہ اسلام سے خارج ہوا ہے تو اس سے زید کے نکاح پر اثر پڑے گا؟ کیا اس کی بیوی اس کے نکاح میں رہے گی؟
یاد رہے کہ مذکورہ جملہ زید نے کسی دباؤ یا زور زبردستی کی وجہ سے نہیں کہا تھا بلکہ محض غصے میں یہ باتیں ہوئی ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے واقعتاً مذکورہ جملہ "ہاں میں مسلمان نہیں ہوں" اپنے اختیار سے کہا ہے تو زید دائرہ اسلام سے خارج ہوگیاہے، اس پر توبہ استغفار لازم ہے اور تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کرنا بھی ضروری ہے، آئندہ کے لیے ایسے جملے کہنے سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
"رجل كفر بلسانه طائعاً وقلبه مطئن بالإيمان يكون كافراً ولا يكون عند الله مؤمناً كذا في فتاوى قاضيخان."
وفیها ایضا :
"وقد حكي عن بعض أصحابنا أن رجلاً لو قيل له : ألست بمسلم فقال : لا يكون ذلك كفراً كذا في فتاوى قاضيخان....مسلم قال : أنا ملحد يكفر ولو قال : ما علمت أنه كفر لا يعذر بهذا... وفي اليتيمة سألت والدي عن رجل قال: أنا فرعون أو إبليس فحينئذ يكفر كذا في التتارخانية."
وفیها ایضا :
"إذا أطلق الرجل كلمة الكفر عمداً لكنه لم يعتقد الكفر قال بعض أصحابنا : لا يكفر وقال بعضهم: يكفر وهو الصحيح عندي كذا في البحر الرائق، ومن أتى بلفظة الكفر وهو لم يعلم أنها كفر إلا أنه أتى بها عن اختيار يكفر عند عامة العلماء خلافاً للبعض ولا يعذر بالجهل كذا في الخلاصة، الهازل أو المستهزئ إذا تكلم بكفر استخفافاً واستهزاء ومزاحاً يكون كفراً عند الكل وإن كان اعتقاده خلاف ذلك."
(كتاب السير، الباب التاسع في أحكام المرتدين، ج : 2، ص : 296/97/98/301، ط : دار الکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101758
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن