مسئلہ یہ ہے کہ میری بیٹی کو طلاق ہو گئی ہے،جس کی عمر 26 سال ہے،طلاق سے کچھ دن پہلے سسرال والوں سے جھگڑا ہو ا تھا،اس میں انہوں نے میری بیٹی کا سب سامان جان بوجھ کر توڑ دیا،اب میں ان سے اس سامان کے پیسے لینا چاہتی ہوں،انہوں نے کچن کا سارا سامان توڑ پھوڑ کر دیا جب کہ بیٹی کو ان برتنوں میں پکانے کھانے ہی نہیں دیا گیا،فرنیچر بھی سارا ٹوٹا پھوٹا ہے،شادی کو صرف ساڑھے تین سال ہوئے ہیں۔
اللہ تعالی نے دو بچے دیے ہیں،بیٹے کی عمر ڈھائی سال اور بیٹی کی عمر ڈیڑھ سال ہے،بری میں انہوں نے سونے کا سیٹ چڑھایا تھا وہ بھی ان کے پاس ہے،کیا میں ان سے اس سیٹ اور سامان جو تھوڑا ہے اس کے پیسوں کا مطالبہ کر سکتی ہوں،کیوں کہ ٹوٹے پھوٹے سامان کا ہم کیا کریں گے،جہیز کے کپڑے جو نہیں پہنے اور لڑکی کے سارے کپڑے ان کے پاس ہیں۔
نیز بچے بھی ماں کے پاس ہیں ان کے خرچے کا کیا حکم ہے؟
سامان کی تفصیل درج ذیل ہے:
(1)حق مہر ایک لاکھ(2)تین تولہ سونے کاسیٹ بری میں دیا(3)ایک سونے کی انگوٹھی منہ دکھائی میں(4)سلامی کے دس ہزار روپے10000(5)ایک موبائل(6)گھڑی تین عدد(7)فرنیچر مکمل(8)دلہن کا جوڑا(9)جائے نماز(10)چھ عدد کارٹن کی چادر(11)بنارسی چادر(12)لحاف اور کمبل(13)کارپیٹ (14)نان اسٹک برتن کا سیٹ(15)پلاسٹک کا ڈنر سیٹ(16)باتھروم سیٹ(17)ہاٹ پاٹ کولر کا سیٹ(18)پلاسٹک کے جگ گلاس کا سیٹ(19)کانچ کے جگ گلاس کا سیٹ(20)کولر(21)استری(22)وال کلاک(23)پنکھا(24)کیٹری سیٹ(25)تھرماس(26)گرم کھانے کا ٹفن (27)الیکٹرک کھیر گھوٹنا(28)گلدان(29)گولڈن لیمپ(30)مصالحے کی برنیاں فینسی(31)کھیر سیٹ(32)قرآن شریف کی رحل(33)صندوق(34)سورٹ کیس(35)واکر (36)بونسر(37)باتھر (38)پوٹی پاٹ(39)کپڑوں کی الماری بچوں کی(40)ڈسبین اور ٹِشو باکس(41)بچوں کی تین عدد گاڑیاں۔
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کی بیٹی کو جہیز میں دیا جانے والا سامان بیٹی کی ملکلیت ہے زیرِ نظر مسئلہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً صحیح ہے کہ بیٹی کے سسرال والوں نے اس کے جہیز کے سامان کونقصان پہنچایا ہے ،اسے توڑا ہے ،تو ایسی صورت میں سامان توڑنے کی وجہ سے جو نقصان پیدا ہوا ہے اس کی قیمت سسرال والوں سے وصول کرنا جائز ہے مکمل سامان کی قیمت کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے،باقی حق مہر اگر ادا نہیں کیا تو شوہر پر اس کی ادائیگی لازم ہے، بری میں جو سونے کا سیٹ چڑھایا تھااس کا حکم یہ ہے کہ یہ سیٹ چڑھاتے وقت اگر سسرال والوں نے ملکیت کی صراحت کی تھی یعنی یہ کہا تھا کہ یہ سیٹ بیوی کا ہے تو ایسی صورت میں بری کا یہ زیور سائلہ کی بیٹی کی ملکیت ہے سائلہ کی بیٹی اس کا مطالبہ کر سکتی ہے اوراگر استعمال کرنےکی صراحت کی تھی کہ یہ آپ کو صرف استعمال کے لیے دیاہے تو پھر یہ سیٹ سسرال والوں کی ملکیت ہے،اور اگر کوئی صراحت نہیں کی تھی تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف اور رواج کے مطابق حکم ہو گا،سائلہ کی بیٹی کے سسرال اگر وہ دلہن کو ہبہ وملکیت کے طورپر دیتے ہیں تو وہ سائلہ کی بیٹی کی ملکیت شمار ہوگی اور اس کے لیے سسرال والوں سے اس کا مطالبہ کرنا جائز ہے اور ان پر اس کو واپس کرنا لازم ہے، اور اگر وہ صرف استعمال کے لیے دیتے ہیں تو پھر سسرال والے ہی اس کے مالک شمار ہو ں گے سائلہ کی بیٹی کو مطالبہ کرنے کا حق نہ ہو گا،اور اگر ان کے خاندان میں کوئی عرف نہیں ہے تو پھرظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے یہ زیورات سائلہ کی بیٹی کی ملکیت میں شمار ہوں گے، اور سسرال والوں سے اس کا مطالبہ کرنا جائز ہو گا،سلامی میں جتنی رقم سسرال والوں نے لڑکی کو دی تھی اس طرح منہ دکھائی میں جو انگوٹھی دی تھی تو یہ بیوی کی ملکیت ہیں، لہذا اگر سسرال والوں نے وہ رقم سائلہ کی بیٹی سے لے کر واپس نہیں دی ہے اور اب وہ مطالبہ کر رہی ہےتو سسرال والوں پر اس نقدی وغیرہ کی واپسی لازم ہے،اسی طرح منہ دکھائی میں جو انگوٹھی دی تھی وہ بھی سائلہ کی بیٹی کی ملکیت ہے لہذا اگر سسرال والوں نے وہ واپس لی ہے اور سائلہ کی بیٹی اب اس کا مطالبہ کر رہی ہے تو سسرال والوں کا سائلہ کی بیٹی کو واپس کرنا ضروری ہے ،باقی بچوں کے نان و نفقہ کا حکم یہ ہے کہ بچے خواہ ماں کے پاس رہیں یا باپ کے پاس رہیں بیٹی کی شادی ہونے تک اس کا خرچہ اور بیٹے کے بالغ ہونے اور کمانے کے قابل ہونے تک کا خرچہ شرعاً باپ پر لازم ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وإذا طالبت المرأة بالمهر يجب على الزوج تسليمه أولا؛ لأن حق الزوج في المرأة متعين، وحق المرأة في المهر لم يتعين بالعقد، وإنما يتعين بالقبض فوجب على الزوج التسليم عند المطالبة ليتعين".
(کتاب النکاح، فصل بيان ما يجب به المهر، ج:2، ص:288، ط:مطبعة الجمالية بمصر)
فتاوی شامی میں ہے:
"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا".
(کتاب النکاح، باب المهر، مطلب فيما يرسله إلى الزوجة، ج:3،ص:153، ط:ایچ ایم سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية".
(کتاب النکاح، الباب السابع في المهر، الفصل السادس عشر في جهاز البنت، ج:1، ص:327، ط:رشیدیہ)
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے :
"أجمعوا أنه لو استهلك مال الغير من غير أن يكون وديعة عنده ضمن للحال".
(كتاب الديات ، باب غصب العبد والمدبر والصبي والجناية في ذلك، ج:6، ص:168، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)
شرح القواعد الفقهيۃ میں ہے:
"وإن كان تصرفا بإحداث فعل ذي أثر في العين، كالحفر في ملك الغير بلا إذنه فليس للمالك أن يجبر الحافر على الطم عند أبي حنيفة وأبي يوسف، بل يضمنه النقصان".
(القاعدة الخامسة والتسعون، لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه، ص:461، ط:دار القلم، دمشق)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولو كان للصغير أبوان فنفقته على الأب لا على الأم بالإجماع وإن استويا في القرب والولادة ولا يشارك الأب في نفقة ولده أحد؛ لأن الله تعالى خص الأب بتسميته بكونه مولودا له وأضاف الولد إليه فاللام الملك وخصه بإيجاب نفقة الولد الصغير عليه بقوله {وعلى المولود له رزقهن} [البقرة: 233] أي رزق الوالدات المرضعات سمى الأم والدة والأب مولودا له".
(کتاب النفقة، فصل في سبب وجوب هذه النفقة، ج:4، ص:32، ط:مطبعة الجمالية بمصر)
البحرالرائق میں ہے:
"وفي القنية يجبر الأبعد إذا غاب الأقرب وقيد بالفقر؛ لأن الغني نفقته على نفسه وقيدنا بالعجز عن الكسب وهو بالأنوثة مطلقا وبالزمانة والعمى ونحوها في الذكر فنفقة المرأة الصحيحة الفقيرة على محرمها فلا يعتبر في الأنثى إلا الفقر، وأما البالغ الفقير فلا بد من عجزه بزمانة أو عمى أو فقء العينين أو شلل اليدين أو مقطوع الرجلين أو معتوه أو مفلوجزاد في التبيين أن يكون من أعيان الناس يلحقه العار من التكسب أو طالب علم لا يتفرغ لذلك وفي المجتبى البالغ إذا كان عاجزا عن الكسب وهو صحيح فنفقته على الأب وهكذا قالوا في طالب العلم إذا كان لا يهتدي إلى الكسب لا تسقط نفقته عن الأب بمنزلة الزمن والأنثى اهـ.
(قوله: وهو بالأنوثة مطلقا) أيبلا قيد زمانة أو عمى ومثل الأنوثة الصغر، وقد مر عند قول المتن ولطفله الفقير أن الأب الغني تجب عليه نفقة ابنه الصغير الفقير إلى أن يبلغ حد الكسب وإن لم يبلغ الحلم فهنا بالأولى حتى لو كان له كسب يكفيه لا تجب نفقته على القريب، وكذا الأنثى على ما قدمناه عن حاشية الرملي."
(کتاب الطلاق، باب النفقة، النفقة للقريب، ج:4، ص:228، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102408
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن