بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حقِ حضانت ( پرورش) اور نانا کے اس میں مداخلت کا حکم


سوال

میرے اور بیوی کے درمیان ان شرائط کے ساتھ خلع دینے کا فیصلہ طے ہوا ہے کہ بچے شوہر کے پاس رہیں گے ،ایک لڑکے  کی عمر سات سال ہےاور دوسرے کی پانچ سال ہے اور  یہ کہ ان کی ماں کو ہفتہ میں ایک دن ان سے ملنے کی اجازت ہوگی،اس کے علاوہ مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے،اس بات پر میری بیوی بھی راضی ہے،البتہ اس کے والد اقرار نامہ پر دستخط کرنے سے منکر ہےاور کہہ رہا ہے کہ مجھے بچوں کی ضرورت پڑی تو میں عدالت میں  کیس کردوں گا ۔اب کیا ان کادستخط ضروری ہے،جب کہ میری بیوی بچوں کو چھوڑنے پر راضی ہے۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں شوہر کا بیوی کو خلع دینے کے لیے یہ شرط عائد کرنا کہ بچے باپ کی پرورش میں دینا ہوں گے، یہ شرط پانچ سالہ بچے کے بارے میں معتبر نہیں ہوگی؛ کیوں کہ شرعی طور پر  بچے کی عمر سات سال ہونے تک اس کی پرورش کا حق ماں کو ہے،ماں کے اپنا یہ حق چھوڑنے سے باپ کو یہ حق نہیں مل جائے گا، بلکہ بچے کی نانی، دادی کو بالترتیب یہ حق حاصل ہوگا، البتہ جب اس کی عمر سات سال ہوجائے تو باپ کو اس کی پرورش کا حق ہوگا، باقی بڑا بچہ جس کی عمر سات سال ہے وہ باپ کی پرورش میں رہے گا۔

 فتاوی عالمگیری ميں ہے:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى -: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين."

(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص: 541، ط: دار الفكر)

فتاوى شامي میں ہے:

" في الدر: وفي الحاوي: له إخراجه إلى مكان يمكنها أن تبصر ولدها كل يوم كما في جانبها فليحفظ. قلت: وفي السراجية: إذا سقطت حضانة الأم وأخذه الأب لا يجبر على أن يرسله لها، بل هي إذا أرادت أن تراه لا تمنع من ذلك.

وفي الرد:ويؤيده ما في التتارخانية: الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعهده. اهـ."

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:371، ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم۔۔الخ."

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 3، ص: 563، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601100945

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں