بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ہر پریشانی سے نجات کے لئے لا خلابہ کا ورد کرنا


سوال

آج کل ایک وظیفہ بہت عام کیا ہوا ہے کہ ہر قسم کی تنگی و پریشانی سے نجات کے لئے "لاخلابہ "کا ورد یا وظیفہ کریں یا اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ورد کریں، اس کی کیا حقیقت ہے ؟

جواب

’’لاخلابۃ‘‘ کا جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےا یک صحابی حضرت حبان بن منقذ رضی اللہ عنہ  کو ارشاد فرمایاتھا ،حضرت حبان بن منقذ رضی اللہ عنہ کو خرید و فروخت میں دھوکہ ہوجایا کرتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے ان کو فرمایا کہ جب تم کوئی سودا کرو تو یہ کہہ دو کہ :’’لا خلابۃ ‘‘(دھوکہ نہیں ہونا چاہیے)۔

اس حدیث کی تشریح میں شارحین حدیث کے مختلف اقوال ہیں، چنانچہ مظاہر حق میں ہے:

’’علامہ تورپشتی لکھتے ہیں کہ جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بیع کے وقت یہ لفظ کہنے کا حکم دیا تاکہ خریدار کو آگاہ کردیا جائے کہ مجھے اس معاملے  کی زیادہ واقفیت نہیں تمہیں چاہیے کہ تم میرے ساتھ فریب نہ کرو  اور نہ ہی مجھے نقصان پہنچاؤ تو اس زمانہ میں لوگ چونکہ دیندار اور مخلوق  کے بہی خواہ تھےاور مسلمان بھائیوں کے لئے اسی چیز کو پسند کرتے تھے جواپنے لئے پسند کرتے تھے ،خصوصا جب کہ وہ مسلمان اس کو آگاہ بھی کردے ،چنانچہ اس کہنے سے وہ اس کی خیر خواہی کا لحاظ رکھتے تھے۔علامہ طیبی رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو پسند   کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بات بطور  خیر خواہی کے کہی گئی  بیع کے فسخ اور عدم فسخ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔بعض حضرات نے کہا یہ کہ خیار ِ شرط کی تمہید ہے جبکہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ لا خلابہ کہنے سے خیار ِ شرط ثابت نہیں ہوتا ،اس کے لئے مستقل بات کرنا ضروری ہے ۔ـ‘‘

(ج:3،ص:72،ط:مکتبۃ العلم)

مذکورہ تفصیل سے  ’’لاخلابہ ‘‘ کا مفہوم   واضح ہوگیا اور اس میں شراح حدیث کے مختلف اقوال بھی اجمالا معلوم ہوگئے  ،اس  میں کہیں     یہ بات ذکر نہیں ہے کہ  ہر پریشانی و مصیبت کے وقت  یہ جملہ  بطور ِ ورد اور وظیفہ پڑھنا چاہئے۔

وفي بذل المجهود في حل سنن أبي داود:

"عن ابن عمر: أن رجلا ذكر لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنه يخدع فى البيع ، فقال له رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "إذا بايعت فقل: لا خلابة"فكان  الرجل إذا بايع يقول: لا خلابة.

 أن رجلا) وهو حبان  بن منقذ (ذكر لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه يخدع في البيع، فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إذا بايعت فقل: لا خلابة) بكسر المعجمة وتخفيف اللام، أي: لا خديعة.

ذهب الشافعية والحنفية إلى أن الغبن غير لازم فلا خيار للمغبون، سواء قل الغبن أو كثر، وأجابوا عن الحديث: بأنها واقعة وحكاية حال. قال ابن العربي : إنه كله مخصوص بصاحبه لا يتعدى إلى غيره.

قال الخطابي : واختلف الناس في تأويل هذا الحديث، فقال بعضهم: إنه خاص في أمر حبان بن منقذ، وأن النبي - صلى الله عليه وسلم - جعل هذا القول شرطا له في بيوعه، فيكون له الرد به إذا تبين الغبن في صفقته، فكان سبيله سبيل من باع أو اشترى على شرط الخيار، وقال غيره: الخبر على عمومه في حبان وغيره.

وقال مالك في بيع المغابنة: إذا لم يكن المشتري ذا بصيرة كان له فيه الخيار. وقال أحمد في بيع المسترسل: يكره غبنه، وعلى صاحب السلعة أن يستقصي له، وقد حكي عنه أنه قال: إذا بايعه فقال: "لا خلابة"، فله الرد.

وقال أبو ثور: البيع إذا غبن في أحد البيعين غبنا لا يتغابن الناس فيهما بينهم بمثله فهو فاسد، كان المتبايعان جائزي  الأمر أو محجورا عليهما، وقال أكثر الفقهاء: إذا تصادر المتبايعان عن رضى، وكانا عاقلين غير محجورين، فغبن أحدهما لا يرجع فيه."

 (11/ 217،ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

وفي مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح :

"(وعن ابن عمر قال: قال رجل لرسول الله - صلى الله عليه وسلم: إني أخدع) : بصيغة المجهول المتكلم (في البيوع) : بضم الموحدة ويكسر قال القاضي: ذلك الرجل حبان ابن منقذ بن عمرو الأنصاري المازني، وقد صرح به في بعض الروايات (فقال: " (إذا بايعت فقل: لا خلابة ") : بكسر الخاء المعجمة وبلام مخففة بعدها موحدة أي: لا غبن ولا خديعة لي في هذا البيع. قال أحمد: من قال ذلك في بيعه كان له الرد إذا غبن، والجمهور على أنه لا رد له مطلقا، والمقصود التنبيه على أنه ليس من ‌أهل ‌البصارة فيحترز صاحبه عن مظان الغبن ويرى له كما يرى لنفسه، وكان الناس أحقاء برعاية الإخوان في ذلك الزمان، ذكره ابن الملك."

(5/ 1913،ط: دار الفكر، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607102616

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں