بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کرایہ دار کا مکان منتقل ہونے سے پہلے معاہدہ ختم کرنے کی صورت میں مالکِ مکان کو ایڈوانس کے طور دیے ہوئے پیسے لینے کا حکم


سوال

مجھے دو کمروں والے مکان کی ضرورت تھی ، پھر مجبوراً  (یعنی دوکمروں والا مکان مل نہیں رہا تھا) میں نے تین کمروں والا مکان 79 ہزار کرایہ پر لیا ، مالک مکان نے بتا یا کہ مکان کی مرمت اور رنگ وروغن ہورہا ہے، تو  آپ ایڈ وانس کے طور پر پہلے 20 ہزار روپے دے دیں، پھر دوبارہ کہا کہ گریل بہت مہنگی ہے اور پیسے بھی ایڈوانس دےدیں، تو میں نے ایک لاکھ روپے اور دیے، 10 ہزار روپے مینٹیننس کی مد میں علیحدہ دیے ،تو کل میں نے اس کو ایڈوانس کے طور پر 130000ہزار روپے دیے تھے ،   اس میں سے 4 ہزار روپے بجلی بل کے  کاٹنے تھے ، 79 ہزار روپے کرایۂ  مکان کے کاٹنے تھے ، لیکن  یہ صرف ہمارا معاہدہ اورزبانی  بات  ہوئی تھی،  اور مجھ سے یہ  پیسےلئے گئے تھے،  باقی مکان کا  قبضہ  (جو اصولی طور پرکاغذات وغیرہ پر دستخط کرنے کی شکل میں ہوتا ہے)، اور مکان کی چابی وغیرہ مجھے حوالہ نہیں کی  تھی، اور نہ ہی میں نے اپنا سامان وغیرہ منتقل کیا تھا، کیوں کہ اس میں کام چل رہاتھا،یعنی میرے ہاتھ ابھی تک مکان کے حوالے سے کچھ اختیارات  نہیں دیے گئےتھے، اسی دوران 13 دن گزرگئے۔

پھر میرے بیٹے کو دو کمروں والا اور مکان مل گیا ، تو ہم نے پہلے والے مالکِ مکان سے زبانی معاہدہ ختم کردیا ، اور ہم اس دوسرے مکان میں منتقل ہوگئے ، تو اس  مالکِ مکان (پہلے والا) نے صرف 30 ہزار روپے واپس کیے ہیں، باقی 90 ہزار روپے اب بھی رہتے ہیں ، اور  وہ دینے کے لیے تیار نہیں  ہے ،تو پوچھنا یہ تھا کہ کیامالکِ مکان کے لیے صرف  13 دن (جو درمیان میں گزر گئے ہیں) پیسے کاٹنا جائز تھا؟ یا   پورے مہینے کے پیسے کاٹنا جائز ہے ؟ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے مذکورہ تین کمروں والا مکان کرایہ پر لیا ،اور اس کی مرمت رنگ وروغن کے لیے ایڈوانس  کے طور پر مالکِ مکان نے اس سے کل 130000ہزار روپے  لیے ،پھر  30 ہزار روپے واپس کرکے  90 ہزارباقی رہ گئے، لیکن سائل ابھی تک اس مکان میں حقیقی طور پر منتقل نہیں ہوا تھا، اور نہ ہی اس کو مذکورہ مکان کے اختیارات اور قبضہ  ملاتھا  کہ سائل نے  زبانی معاہدہ ختم کرکے دوسری جگہ دو کمروں  کے مکان میں رہائش پذیر ہوگئے، تو ایسی صورت میں سائل نے  مالکِ مکان کو جتنی رقم  دی ہے،  یہ رقم مالک مکان کے ذمہ واجب الادا ہے ،یعنی  مالکِ مکان  کے لیے ایسی صورت میں ایک دن کا کرایہ کاٹنا  بھی جائز نہیں ہے،  لہذا مالک مکان کے لیے نہ 13 دن کے پیسے کاٹنا جائز ہیں،اور نہ ہی 17 دن کے پیسے کاٹنا جائز ہیں، بلکہ اس کے ذمہ سائل کے پورے  90 ہزار روپے واپس کرنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة. وحكمها وقوع الملك في البدلين ساعة فساعة ...

(قوله: ساعة فساعة) ؛ لأن المنفعة عرض لا تبقى زمانين، فإذا كان حدوثه كذلك فيملك بدله كذلك قصدا للتعادل، لكن ليس له المطالبة إلا بمضي منفعة مقصودة كاليوم في الدار والأرض والمرحلة في الدابة كما سيأتي."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الإجارة، شروط الإجارة، 6/ 5، ط: سعيد)

وفیہ ایضا:

"(فيجب الأجر لدار قبضت ولم تسكن) لوجود تمكنه من الانتفاع، وهذا (إذا كانت الإجارة صحيحة، أما في الفاسدة فلا) يجب الأجر (إلا بحقيقة الانتفاع) كما بسط في العمادية، وظاهر ما في الإسعاف إخراج الوقف فتجب أجرته في الفاسد بالتمكن كذا في الأشباه ... 

(قوله: أو تمكنه منه) في الهداية: وإذا قبض المستأجر الدار فعليه الأجرة وإن لم يسكن. قال في النهاية: وهذه مقيدة بقيود: أحدهما التمكن، فإن منعه المالك أو الأجنبي أو سلم الدار مشغولة بمتاعه لا تجب الأجرة. الثاني أن تكون صحيحة، فلو فاسدة فلا بد من حقيقة الانتفاع. الثالث أن التمكن يجب أن يكون في محل العقد، حتى لو استأجرها للكوفة فأسلمها في بغداد بعد المدة فلا أجر. الرابع أن يكون متمكنا في المدة، فلو استأجرها إلى الكوفة في هذا اليوم وذهب بعد مضي اليوم بالدابة ولم يركب لم يجب الأجر؛ لأنه إنما تمكن بعد مضي المدة طوري، وبه علم أن الأولى ذكر القيود فيستغنى عن قوله إلا في ثلاث كما سيظهر لك."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الإجارة، شروط الإجارة، 6/ 11، سعيد)

دررالحکام شرح غررالاحکام میں ہے :

"(لا يلزم الأجر بالعقد) أي لا يملك بنفس العقد و لا يجب تسليمه به عينا كان أو دينا؛ لأن العقد معاوضة وأحد العوضين منفعة تحدث شيئا فشيئا، والآخر مال و مقتضى المعاوضة المساواة فمن ضرورة التراخي في جانب المنفعة التراخي في البدل (بل بتعجيله) بأن يعطيه قبل حلول الأجل، فإنه يكون هو الواجب بالعقد حتى لا يكون له حق الاسترداد (أو شرطه) أي شرط تعجيله حال العقد، فإنه حينئذ يجب (أو الاستيفاء) أي استيفاء المنفعة المعقود عليها، فإن الأجر حينئذ يجب أيضا (أو تمكنه منه) أي من الاستيفاء وفرع على هذا بقوله (فيجب) أي الأجر (لدار قبضت ولم تسكن) لوجود التمكن من الاستيفاء."

(كتاب الإجارة، ج: 2، ص: 226، ط: در احیاء الکتب العربیۃ)

بدائع الصنائع میں ہے :

"ومنها تسليم المستأجر في إجارة المنازل، و نحوها إذا كان العقد مطلقا عن شرط التعجيل بأن لم يشترط تعجيل الأجرة في العقد و لم يوجد التعجيل أيضا من غير شرط عندنا، خلافا للشافعي، بناء على أن الحكم في الإجارة المطلقة لا يثبت بنفس العقد عندنا؛ لأن العقد في حق الحكم ينعقد على حسب حدوث المنفعة فكان العقد في حق الحكم مضافا إلى حين حدوث المنفعة فيثبت حكمه عند ذلك.

وعنده تجعل منافع المدة موجودة في الحال تقديرا كأنها عين قائمة فيثبت الحكم بنفس العقد، كما في بيع العين، و هذا أصل نذكره في بيان حكم الإجارة وكيفية انعقادها في حق الحكم إن شاء الله تعالى ونعني بالتسليم التخلية و التمكين من الانتفاع برفع الموانع في إجارة المنازل و نحوها و عبيد الخدمة و أجير الوحد، حتى لو انقضت المدة من غير تسليم المستأجر على التفسير الذي ذكرنا لا يستحق شيئا من الأجر؛ لأن المستأجر لم يملك من المعقود عليه شيئا فلا يملك هو أيضا شيئا من الأجر؛ لأنه معاوضة مطلقة، ولو مضى بعد العقد مدة ثم سلم فلا أجر له فيما مضى لعدم التسليم فيه، ولو أجر المنزل فارغا وسلم المفتاح إلى المستأجر فلم يفتح الباب حتى مضت المدة لزمه كل الأجر لوجود التسليم و هو التمكين من الانتفاع برفع الموانع في جميع المدة فحدثت المنافع في ملك المستأجر فهلكت على ملكه فلا يسقط عنه الأجر، كالبائع إذا سلم المبيع إلى المشتري بالتخلية فهلك في يد البائع كان الهلاك على المشتري؛ لأنه هلك على ملكه، كذا هذا، وإن لم يسلم المفتاح إليه لكنه أذن له بفتح الباب فقال: مر، وافتح الباب فإن كان يقدر على فتح الباب بالمعالجة لزمه الكراء لوجود التسليم وإن لم يقدر لا يلزمه؛ لأن التسليم لم يوجد."

(كتاب الإجارة، ج: 4، ص: 179، ط: دارالکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144512101572

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں