1۔ قرب قیامت کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ مفہوم:قیامت کے قریب ہر شخص تک کسی نہ کسی طریقے سے سود پہنچے گا۔
سوال یہ ہے کہ کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے آدمی حرام اور مشتبہ مال سے بچ سکے؟کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جھوٹا تو نہیں ہو سکتا۔ یہی سوال دوسری طرز پر دراصل میں اپنی کمائی کے متعلق بہت سوچتا ہوں کہ ایسی کمائی ہو جو مجھے اللہ کی اطاعت پر لگائے نافرمانی سے بچائے دوسری طرف جب میں اس علامت کو دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ سود سے بچ سکیں۔
2۔ خطبہ جمعہ کے وقت اگر کوئی شخص گھر میں جمعہ کی تیاری کر رہا ہے اور خطبہ کی آواز سنائی دے رہی ہے تو کیا گھر میں بیٹھ کر خطبہ سنے، اور تیاری مکمل کرے یا مسجد کی طرف سعی کرے؟
1۔ صورت مسئولہ میں مسلمان اپنی حد تک خرید و فروخت کرتے ہوئے شرعی ضوابط کی پاسداری رکھے، اور واضح حرام معاملات کرنے اجتناب کرے، اور کسی بھی ایسے عمل کو اختیار نہ کرے، جس کے حلال و حرام ہونے میں شبہ ہو، اسی طرح حرام آمدنی والے شخص کے یہاں کھانا کھانے سے اجتناب کرے، پس کوشش کے باوجود اگر کوئی چوک ہوگئی تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ معاف فرمائے گا۔
مسند الدارمي میں ہے:
"٢٥٧٣ - أخبرنا أبو نعيم، حدثنا زكريا، عن الشعبي، قال: سمعت النعمان بن بشير، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «الحلال بين، والحرام بين، وبينهما متشابهات لا يعلمها كثير من الناس، فمن اتقى الشبهات، استبرأ لعرضه ودينه، ومن وقع في الشبهات، وقع في الحرام، كالراعي يرعى حول الحمى، فيوشك أن يواقعه، وإن لكل ملك حمى، ألا وإن حمى الله محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة، إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب»"
(ومن كتاب البيوع، باب: في الحلال بين والحرام بين، ٣ / ١٦٤٧، ط: دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
"والتقدير: ولا يبقى أحد منهم له وصف إلا وصف كونه أكل الربا فهو كناية عن انتشاره في الناس بحيث أنه يأكله كل أحد (فإن لم يأكله أصابه من بخاره ويروى من غباره) أي يصل إليه أثره بأن يكون شاهدا في عقد الربا أو كاتبا أو آكلا من ضيافة آكله أو هديته، والمعنى أنه لو فرض أن أحدا سلم من حقيقته لم يسلم من آثاره، وإن قلت جدا. قال الطيبي - رحمه الله: المستثنى منه أعم: عام الأوصاف نفى جميع الأوصاف إلا الأكل ونحن نرى كثيرا من الناس لم يأكله حقيقة فينبغي أن يجرى على عموم المجاز فيشمل الحقيقة والمجاز ولذلك أتبعه بقوله التفصيلي فإن لم يأكله حقيقة يأكله مجازا، والبخار والغبار مستعاران بما يشبه الربا به من النار والتراب."
(كتاب البيوع،باب الربا، الفصل الثاني، ٥ / ١٩٢٢، رقم الحديث: ٢٨١٨، دار الفكر)
بذل المجهود في حل سنن أبي داود میں ہے:
"قلت: وفي هذا الزمان كذلك، فإن جميع أنواع التجارات في أيدي الكفار، وعقودهم كلها فاسدة، فهي في حكم الربا، فلم يسلم منه أحد."
(كتاب البيوع، باب في اجتناب الشبهات، ١١ / ١٥، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
2۔
جمعہ کے روز خطبہ شروع ہونے سے قبل مسجد آنے کا حکم ہے، گھر میں بیٹھ جمعہ کا خطبہ سننا اور کام کاج میں مصروف رہنا، از روئے حدیث کافی نہیں، بلکہ ثواب سے محرومی کا باعث ہے؛ جیسا کہ صحیح البخاری اور سنن ماجہ کی روایات میں ہے کہ: "جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے مقرر ہوتے ہیں جو لوگوں کے نام ان کے مرتبوں کے مطابق لکھتے ہیں جو کوئی پہلے آتا ہے اس کا نام پہلے پھر جو کوئی بعد میں آتا ہے اس کا اس کے بعد، اور جب امام (خطبہ کے لیے) آتا ہے تو وہ فہرستیں لپیٹ کر توجہ سے خطبہ سنتے ہیں، پس سب سے پہلے جمعہ کے لیے آنے والا اونٹ قربانی کرنے والے کی مانند ہے، پھر اس کے بعد والا گائے قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد آنے والا مینڈھا قربان کرنے والے کی مانند ہے، پھر اس کے بعد والے کو مرغی اور اس کے بعد والے مرغی کا انڈا صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے، پھر جب امام خطبہ دینے کے لیے نکل آئے تو فرشتے اپنے صحیفوں کو لپیٹ کر خطبہ سننے لگ جاتے ہیں۔" جبکہ سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ جو شخص خطبہ شروع ہونے کے بعد آتا ہے، اس کی نماز اگرچہ ہوجاتی ہے، مگر زائد ثواب سے محروم رہتا ہے۔
صحیح البخاری میں ہے:
٩٢٩ - حدثنا آدم قال: حدثنا ابن أبي ذئب، عن الزهري، عن أبي عبد الله الأغر، عن أبي هريرة قال: قال النبي صلي الله عليه وسلم: «إذا كان يوم الجمعة، وقفت الملائكة على باب المسجد، يكتبون الأول فالأول، ومثل المهجر كمثل الذي يهدي بدنة، ثم كالذي يهدي بقرة، ثم كبشا، ثم دجاجة، ثم بيضة، فإذا خرج الإمام طووا صحفهم ويستمعون الذكر»."
(كتاب الجمعة، باب الاستماع إلى الخطبة، ٢ / ١١، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق)
سنن ابن ماجہ مع حاشیۃ السندي على سنن ابن ماجہ میں ہے:
"١٠٩٢ - حدثنا هشام بن عمار وسهل بن أبي سهل قالا حدثنا سفيان بن عيينة عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إذا كان يوم الجمعة كان على كل باب من أبواب المسجد ملائكة يكتبون الناس على قدر منازلهم الأول فالأول فإذا خرج الإمام طووا الصحف واستمعوا الخطبة فالمهجر إلى الصلاة كالمهدي بدنة ثم الذي يليه كمهدي بقرة ثم الذي يليه كمهدي كبش حتى ذكر الدجاجة والبيضة زاد سهل في حديثه فمن جاء بعد ذلك فإنما يجيء بحق إلى الصلاة»"
"قوله: (إلى الصلاة) أي فله أجر الصلاة وليس له شيء من الزيادة في الزوائد إسناده صحيح."
(كتاب إقامة الصلاة و السنة فيها، باب ما جاء في التهجير إلى الجمعة، ١ / ٣٣٩ - ٣٤٠، ط: دار الفكر)
ایک اور روایت میں ہے کہ: حضرت علقمہ بن قیس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: "میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ کے لیے نکلا، انہوں نے تین آدمیوں کو دیکھا جو ان سے آگے بڑھ گئے تھے، تو کہا: میں چار میں سے چوتھا ہوں اور چار میں سے چوتھا کچھ دور نہیں ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس اسی ترتیب سے بیٹھیں گے جس ترتیب سے جمعہ کے لیے پہلے اور بعد میں جاتے رہتے ہیں، جمعہ کے لیے پہلے جانے والا وہاں بھی پہلے درجہ میں دوسرا دوسرے درجہ میں اور تیسرا تیسرے درجہ میں بیٹھے گا" پھر کہا: چار میں سے چوتھا اور چار میں سے چوتھا کچھ دور نہیں ہے۔"
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعہ کے روز جلد مسجد حاضر ہونا چاہیے، اور تاخیر کرنا درست نہیں۔
سنن ابن ماجہ میں ہے:
١٠٩٤ - حدثنا كثير بن عبيد الحمصي، حدثنا عبد المجيد بن عبد العزيز، عن معمر، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة قال: خرجت مع عبد الله إلى الجمعة، فوجد ثلاثة قد سبقوه، فقال: رابع أربعة، وما رابع أربعة ببعيد، إني سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "إن الناس يجلسون من الله يوم القيامة على قدر رواحهم إلى الجمعات، الأول والثاني والثالث". ثم قال: رابع أربعة، وما رابع أربعة ببعيد."
(أبواب إقامة الصلوات والسنة فيها، باب ما جاء في التهجير إلى الجمعة، ٢ / ١٩٣، ط: دار الرسالة العالمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102844
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن