مکہ اور مدینہ میں مرغی، بڑے اور چھوٹے گوشت کے بارے میں آگاہ فرمادیں؛ کیونکہ اکثر علمائے کرام ان کے استعمال سے منع فرماتے ہیں۔
واضح رہے کہ مسلم ممالک خاص کر حرمین شریفین میں فروخت ہونے والےگوشت (خواہ مرغی کا ہو یا گائے، بھیڑ اور بکری کا، اس) کےبارے میں غالب گمان یہی ہے کہ شرعی اصول کے مطابق ذبح شدہ جانور کا گوشت ہوگا، اگر جانور واقعی شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو تو بلاشبہ اس کا کھانا حلال ہے، صرف شک کی بنیاد پر اسے حرام قرار نہیں دیا جاسکتا، البتہ اگر گوشت درآمد شدہ ہو تو چونکہ اس طرح کے درآمد شدہ گوشت میں ذبح کی شرائط کا عموماً لحاظ نہیں رکھا جاتا، بالخصوص غیر مسلم ممالک سے درآمد شدہ گوشت میں غالب گمان حرمت کا ہے؛ اس لیے ان ممالک سے درآمدشدہ گوشت کو حلال قرار نہیں دیا جاسکتا، لہٰذا مسلمانوں کو اس کے کھانے سے احتراز کرنا چاہیے، تاہم اگر یقینی ذرائع سے معلوم ہوجائے کہ درآمد شدہ گوشت حلال جانور کا ہے، ذبح کرتے ہوئے شرعی ذبح کا لحاظ رکھا گیا ہے اور اس کا ذبح کرنے والا مسلمان ہے، تو ایسی صورت میں اس کے کھانے کی اجازت ہوگی، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس بارے میں پوری تحقیق ہو، بغیر تحقیق صرف ان کے حلال کہنے یا ڈبہ پر حلال لکھے ہونے یا حلال کا ٹیگ لگے ہونے پر اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ ہاں اگر مسلمانوں کا معتبر حلال تصدیقی ادارہ اس کے حلال ہونے کی تصدیق کردے تو ایسا گوشت کھانا جائز ہوگا۔
اسی طرح حرمین شریفین اور مسلم ممالک کے ہوٹلوں میں غالب گمان یہی ہے کہ وہ کھانے میں کوئی حرام چیز استعمال نہیں کرتے ہیں، لہٰذا اس طرح کی ہوٹلوں کا کھانا کھانے میں شرعًا کوئی حرج نہیں، تاہم اگر کسی ہوٹل کے بارے میں یہ یقین ہو کہ وہاں حرام گوشت، مرغی یا کھانے میں کوئی حرام چیز استعمال ہو رہی ہے یا ان کا ذبیحہ غیر مسلم ممالک سے درآمد شدہ ہے، جہاں ذبح کے شرعی اصول کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ہو، تو پھر اس قسم کے ہوٹلوں کے کھانے سے اجتناب لازم ہے۔
النتف فی الفتاویٰ میں ہے:
"ولا يأكلون من أطعمة الكفار ثلاثة أشياء: اللحم والشحم والمرق، ولا يطبخون في قدروهم حتى يغسلوها."
(كتاب الجهاد، ما لا يؤكل من أطعمة الكفار، ج:2، ص:707، ط:مؤسسة الرسالة بيروت)
غمز عیون البصائر میں ہے :
"اعلم أن الشك على ثلاثة أضرب: شك طرأ على أصل حرام، وشك طرأ على أصل مباح، وشك لا يعرف أصله، فالأول، مثل: أن يجد شاة مذبوحة في بلد فيها مسلمون ومجوس فلا تحل، حتى يعلم أنها ذكاة مسلم؛ لأن أصلها حرام وشككنا في الذكاة المبيحة، فلو كان الغالب فيها المسلمين جاز الأكل عملا بالغالب المفيد للطهورية."
(الفن الأول قول في القواعد الكلية، القاعدة الثالثة اليقين لا يزول بالشك، ج:1، ص:193، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"رجل اشترى من التاجر شيئا هل يلزمه السؤال أنه حلال أم حرام قالوا ينظر إن كان في بلد وزمان كان الغالب فيه هو الحلال في أسواقهم ليس على المشتري أن يسأل أنه حلال أم حرام ويبنى الحكم على الظاهر، وإن كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلا يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام."
(کتاب البیوع، الباب العشرون، ج:3، ص:210، ط:المكتبة الرشیدیة كوئته)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608101032
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن