بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تدفین کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا


سوال

انتقال کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا سنت سے ثابت ہے یا نہیں ؟

جواب

سائل کا مقصود اگر تدفین کے بعد قبر پر ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنے کے بارے میں سوال ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی شخص  کے انتقال کے بعد اس کی تدفین کا مرحلہ مکمل ہوجائے تو میت کو دفن کرنے کے بعد قبلہ رخ ہوکر ہاتھ  اٹھا کر دعا کرنا درست ہے اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،  لہذا  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  پیروی کرتے ہوئے  قبلہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے۔ تدفین کے بعد انفرادی طور  پر دعا کرنا بھی درست ہے اور جو لوگ تدفین میں شرکت کی غرض سے آئے ہیں ان کے ساتھ مل کر اجتماعی دعابھی درست ہے۔ یہ دعا سراً بھی کرسکتے ہیں اور جہراً بھی، رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ ذو البجادین رضی اللہ عنہ کے لیے قبلہ رُخ ہاتھ اٹھا کر بآواز  دعا فرمائی  جسے سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، البتہ جہر کو لازم نہ سمجھا جائے۔

اور اگر سائل کا مقصود تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے کے بارے میں سوال کرنا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ تعزیت کے دوران ہر آنے والے کے ساتھ  ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے اس کو لازم سمجھ کر کرنا  شرعاً درست نہیں ہے، البتہ لازم سمجھے بغیر مغفرت کی کوئی بھی دعا کی جائے یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرلی  تو  اس کی اجازت ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (5 / 452):

’’عن ابن مسعود قال: والله لكأني أرى رسول الله في غزوة تبوك، وهو في قبر عبد الله ذي البجادين وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده، ثم خرج رسول الله وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعاً يديه يقول: اللّٰهم إني أمسيت عنه راضياً فارض عنه، وكان ذلك ليلاً، فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه‘‘.

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144209200323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں