بعض اوقات دوست احباب جب آپس میں کوئی بات چیت کر رہے ہوتے ہیں تو بات کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ مارتے ہیں۔ یہ اصل میں خوشی کے اظہار کے لئے یا دوسرے کو متوجہ رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
کسی خوشی کی بات یا کام میں موافقت پر اظہارِ خوشی کے لیے ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ مارنا گناہ نہیں ہے،بشرطیکہ اس سے کسی تیسرے فرد کا ضرر (مثلاً دل آزاری، یا اس مذاق اڑانا، کسی کے خلاف ناحق مدد کرنے کے لیے ہاتھ دینا وغیرہ) مقصود نہ ہو ۔ ( سابقہ زمانے میں سودا ہونے پر بھی بائع و مشتری ایسا کرتے تھے)
الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:
"أما التصفيق خارج الصلاة فيكره بلا قصد اللعب على المعتمد عند الرملي، ولو بقصد اللعب على المعتمد عند ابن حجر، وذلك منعا من التشبه بالعرب في الجاهلية: {وما كان صلاتهم عند البيت إلا مكاء وتصدية، فذوقوا العذاب بما كنتم تكفرون}."
(الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي،القسم الأول: العبادات، الباب الثاني: الصلاة، الفصل السادس: سنن الصلاة وصفتها ومكروهاتها والأذكار الواردة عقبها، المبحث الأول ـ سنن الصلاة الداخلة فيها، سنن الصلاة إجمالا في كل مذهب، مذهب الحنابلة، 2/ 935،الناشر: دار الفكر)
موسوعۃ فقہیۃ کویتیۃ میں ہے:
"التصفيق في غير الصلاة والخطبة:
10 - التصفيق في غير الصلاة والخطبة جائز إذا كان لحاجة معتبرة كالاستئذان والتنبيه، أو تحسين صناعة الإنشاد، أو ملاعبة النساء لأطفالهن.
أما إذا كان لغير حاجة، فقد صرح بعض الفقهاء بحرمته، وبعضهم بكراهته. وقالوا: إنه من اللهو الباطل، أو من التشبه بعبادة أهل الجاهلية عند البيت كما قال تعالى: {وما كان صلاتهم عند البيت إلا مكاء وتصدية} .
أو هو من التشبه بالنساء، لما جاء في الحديث من اختصاص النساء بالتصفيق إذا ناب الإمام شيء في الصلاة، في حين أن التسبيح للرجال."
(الموسوعة الفقهية الكويتية، حرف التاء،تصفيق،12/ 77،وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101507
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن