بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاتھوں پر لگے صمد بونڈ یا سلوشن کا چھڑانا مشکل ہو تو وضو کا کیا حکم ہے؟


سوال

میں کتابوں کی جلدوں کا کام کرتا ہوں،  جلد کرنے کے دوران صمد بونڈ یاسلوشن استعمال کیا جاتا ہے اور ان چیزوں کی تہہ ہاتھوں پر جم جاتی ہے،  اب اگر نماز کے لیے جائیں اور وہ سلوشن اتارنے لگیں،  تو وقت بہت ضائع ہوتا ہے اور بعض دفعہ  زیادہ زور لگانے سے ہاتھ  بھی زخمی ہوجاتے ہیں۔اور اگر ہاتھوں پر کوئی دستانہ وغیرہ پہن کر کام کریں تو جلد سازی ٹھیک نہیں ہوتی۔ تو اب ایسی صورتِ  حال میں وضوکا کیاحکم ہے؟

 

جواب

واضح  رہے کہ جن اعضاء کا وضو  میں دھونا فرض ہے، ان اعضاء تک پانی پہنچانا ضروری ہے، ان میں سے کوئی عضو سوئی کے ناکے کے برابر بھی خشک نہ رہے کہ اس پر پانی نہ پہنچا ہو، اگر ان اعضاء میں سے کسی عضو میں سوئی کے ناکے  کے برابر بھی ایسی جگہ ہو جس تک پانی نہ پہنچا ہو تو وہ وضو  شرعاً  نامکمل ہے، اور ایسے نامکمل وضو   سے پڑھی گئی نماز بھی نہیں ہوگی اور ذمے  میں اسی طرح فرض رہے گی جس طرح نہ پڑھنے والے کے ذمے  میں رہتی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر اعضاءِ  وضو میں سے کسی عضو پر  صمد بونڈ یا سلوشن  یا اور کوئی ٹھوس چیز لگ جائے جس کے ہوتے ہوئے کھال تک پانی نہ پہنچتا ہو، تو اس کے لگے ہوئے ہونے کی حالت میں وضو  نہ ہوگا۔ عموماً یہ چیزیں مٹی کے تیل وغیرہ سے بہت آسانی سے صاف ہوجاتی ہیں، لہٰذا  وضو کرنے سے قبل اعضاءِ وضو  پر سے اُن چیزوں کو صاف کرنا ضروری ہوگا؛ کیوں کہ اس میں زیادہ مشقت نہیں ہے، اور  اگر انہیں صاف کرنا ممکن نہ ہو تو پھر ایسے شخص کو چاہیے کہ جلد بندی کرتے ہوئے بہر صورت دستانے وغیرہ پہنے، اور وضو سے پہلے انہیں اتار لے یا کوئی ایسی چیز ہاتھوں پر استعمال کرلے جس سے سلوشن ہاتھوں پر نہ چپکے۔ آج کل مختلف نوعیت کے دستانے اور غلاف ملتے ہیں ، اپنے کام کی سہولت کو مد نظر رکھ کر استعمال مشکل نہیں۔

البتہ اگر کھال پر  سلوشن لگا ہو اور پوری کوشش کے بعد بھی مکمل طور پر نہ چھوٹے، اور زیادہ کوشش کے نتیجے میں کھال اترنے یا زخم بننے کا اندیشہ ہو تو جس قدر ہٹ سکے اس کا چھڑانا ضروری ہوگا، پھر اس کے بعد اسی طرح نماز پڑھ لینے سے نماز ہوجائے گی،  لیکن مستقل  طور پر اس کی عادت بنالینا ٹھیک نہیں  ہے۔

مراقی الفلاح شرح نورالایضاح میں ہے:

"وشرط صحته ثلاثة ... وزوال ما يمنع وصول الماء الى الجسد كشمع وشحم.

وفي المراقي: (وشرط صحته) أي الوضوء ... (كشمع وشحم) قيد به لأن بقاء دسومة الزيت ونحوه لا يمنع لعدم الحائل."

(كتاب الطهارة، باب في الوضو، فصل في أحكام الوضو، ص: ٣٠، ط: المكتبة العصرية)

مجمع الانہر میں ہے:

"(ويعفى ‌أثر ‌شق زواله) بأن يحتاج في إخراجه إلى نحو الصابون."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ١/ ٦٠، ط: دار إحياء التراث العربي)

البحر الرائق میں ہے:

"‌ولو ‌لصق ‌بأصل ظفره طين يابس وبقي قدر رأس إبرة من موضع الغسل لم يجز."

(كتاب الطهارة، أحكام الوضو، ١/ ١٤، ط: دارالكتاب الإسلامي)

وفيه أيضاً:

"‌والمراد ‌بالأثر اللون والريح، فإن شق إزالتهما سقطت وتفسير المشقة أن يحتاج في إزالته إلى استعمال غير الماء كالصابون والأشنان أو الماء المغلي بالنار كذا في السراج."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ١/ ٢٤٩، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں