1۔میں نے آج سے کچھ عرصہ پہلے آپ کے دار الافتاء سے ایک فتوی موبائل کے پیکج ،لوڈ وغیرہ کے متعلق لیاتھا،میرا سوال یہ تھا کہ میں اپنی دکان میں موبائل کے پیکج ،لوڈ وغیرہ کرتاہوں،اس پر میں اضافی رقم وصول کرسکتاہوں ؟جواب یہ دیا تھا کہ دکاندار کا موبائل پیکج پر اضافی رقم وصول کرنا جائز نہیں ،وجہ یہ ذکر کی تھی کہ یہ کمپنی کی طرف سے نمائندہ بن کر کسی کے موبائل پر پیکج بھیجنا ہوتاہے اور چوں کہ کمپنی کی طرف سے اضافی رقم لینے کی اجازت نہیں ہوتی ،اس لیے دکاندار پیکج پر اضافی رقم یعنی پیکج لگوانے کے چارجز نہیں لے سکتا۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ مجھے کمپنی کے نمائندہ نے اضافی رقم لینے کی اجازت دی ہے ،تو کیا اب میرے لئے شرعاً اس بات کی گنجائش ہے کہ میں پیکج پر اضافی چارجز وصول کروں ؟جب کہ عام لوگ اس بات سے واقف ہوتے ہیں اور ان کی رضامندی سے ہم رقم وصول کرتے ہیں ،راہ نمائی فرمائیں۔
2۔دوسرا سوال اسی استفتاء میں حوالہ اور رقم کی ترسیل کا تھا کہ لوگ مجھے کراچی میں رقم دے کر وہ رقم گاؤں بھیجنا چاہتے ہیں ،تو میں اصل رقم پر کچھ اضافی رقم اس ترسیل کے عوض وصول کرتاہوں،کیایہ جائز ہے؟
دارالافتاء نے جواب میں کہا کہ اس رقم کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے لہذا حوالہ کی اصل رقم سے کمی کرکے حوالہ کی فیس کاٹنا جائز نہیں ،اب پوچھنایہ ہے کہ میں نے وہ رقم کراچی سے اپنے آبائی گاؤن ایزی پیسہ یا دیگر ذرائع سے بھیجنی ہوتی ہے،جس پر مجھ سے اضافی رقم کا ٹی جاتی ہے،اب اگر میں ادھر حوالہ کی رقم سے وصول نہیں کرتا تو اس میں میرا نقصان ہے،چوں کہ رقم بھیجنے کےلیے مجھ سے بھی رقم خرچ ہوتی ہے،مثلاً ایزی پیسہ والے کی فیس، بینک کی فیس وغیرہ تو شرعاً ایسی کوئی صورت ہے کہ میں حوالہ پر اضافی چارجز وصول کروں اور گناہ کے زمرے میں بھی نہ آئے۔
تنقیح: کیا اضافی چارجز وصول کرنا کمپنی کی پالیسی ہے؟
جواب تنقیح:کمپنی کی پالیسی مجھے معلوم نہیں ،میرے پاس جو شخص آتاہے اس نے مجھے اجازت دی ہے۔
1۔صورتِ مسئولہ میں موبائل کمپنی کی سہولیات صارف تک پہنچانے پر اگر کمپنی کی طرف سے کمیشن دیا جاتاہے، اگرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو تو صارف سے اضافی رقم وصول کرنا جائز نہیں ہے،اور اگر کمپنی خود کمیشن نہ دے بلکہ صارفین سے لینا کا کہے تو اس کی اجازت سے صارف سے اضافی رقم وصول کی جاسکتی ہے لیکن کارڈ وغیرہ سپلائی کرنے والا وہ کمپنی کا نمائندہ نہیں ہوتا اس کی اجازت کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اضافی چارجز کمپنی کی پالیسی پر موقوف ہے، اگر کمپنی کی پالیسی پہلے کی طرح نہ لینے کی ہو تو اس کا لینا جائز نہیں اور اگر کمپنی نے لینے کا اجازت دی ہو تو اضافی چارجز وصول کرنا جائز ہے۔
2۔اگر کوئی شخص لوگوں کی رقم حوالہ کے ذریعے بھیجتاہے تو اس کےلیے ضروری ہےکہ جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچائی جائے، اصل رقم سے حوالہ کی فیس اور اجرت کاٹنا جائز نہیں ،کیوں کہ مروجہ حوالہ کی شرعی حیثیت قرض کی ہے،اور قرض کی جتنی رقم واجب الاداہوتی ہے اتنی ہی لوٹانا شرعاً ضروری ہے،البتہ سائل کےلیے فیس اوراجرت کے طور پر باہمی رضامندی سے طے شدہ اضافی رقم وصول کرنا جائز ہے،بشرط یہ کہ وہ رقم حوالہ کی رقم سے نہ ہو۔
الفتاوی الھندیه میں ہے:
"الوكيل بالبيع يجوز بيعه بالقليل والكثير والعرض عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى."
(کتاب الوکالة، الباب الثالث، 3/ 588، ط: دار الفکر)
وفیھا أیضاً :
"الموكل إذا شرط على الوكيل شرطا مفيدا من كل وجه بأن كان ينفعه من كل وجه فإنه يجب على الوكيل مراعاته أكده بالنفي أو لم يؤكده كما إذا قال بعه بخيار فباعه بلا خيار لا يجوز هكذا في الذخيرة."
(کتاب الوکالة، الباب الثالث ، 3/ 589، ط: دار الفکر)
وفیھا أیضاً :
"أما تعريفه فمبادلة المال بالمال بالتراضي كذا في الكافي وأما ركنه فنوعان أحدهما الإيجاب والقبول والثاني التعاطي وهو الأخذ والإعطاء كذا في محيط السرخسي."
(کتاب البیوع، الباب الأول، 3/ 2، ط: دار الفکر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض.
وعلى هذا تخرج مسألة السفاتج، التي يتعامل بها التجار، أنها مكروهة؛ لأن التاجر ينتفع بها بإسقاط خطر الطريق؛ فتشبه قرضا جر نفعا."
(کتاب القرض، فصل فی شرائط رکن القرض، 7/ 395، ط: دار الکتب العلمیة)
ردالمحتار علی الدر المختار میں ہے:
"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا."
(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة، فصل فی القرض، مطلب کل قرض،5/ 166، ط: دار الفکر)
الفقه الإسلامی وأدلتهمیں ہے:
"ويتم التعبير عن هذا القرض بتسليم المقرض وَصْلاً (وثيقة) يثبت حقه في بدل القرض، ويكون المقترض وهو الصراف أو البنك ضامناً لبدل القرض، ولكنه يأخذ أجراً أو عمولة على تسليم المبلغ في بلد آخر مقابل مصاريف الشيك أوأجرة البريد أو البرقية أو التلكس فقط، لتكليف وكيل الصراف بالوفاء أو السداد.
وهذان العقدان: الصرف والتحويل القائم على القرض هما الطريقان لتصحيح هذا التعامل، فيما يبدو لي، والله أعلم.
وأما الحوالة البريدية في داخل الدولة بدون صرافة فجائزة بلا خلاف:
أـ فإن سُلّم المبلغ للموظف أمانة جاز بلا كراهة، ولا يضمنه إلا بالتعدي أو التقصير في الحفظ، لكن إذا خلطت المبالغ والحوالات ببعضها وهو مايتم بالفعل كانت مضمونة على المؤسسة.
ب ـ وإن أعطي المبلغ قرضاً دون شرط دفعه إلى فلان، ثم طلب من الموظف ذلك بعد القرض؛ جاز.
جـ ـ وإن أعطي المبلغ قرضاَ بشرط دفعه إلى فلان في بلد كذا، فإن لم يقصد المقرض ضمان المقترض خطر الطريق، جازت الحوالة بالاتفاق، وإن قصد بذلك ضمان خطر الطريق لم يصح العقد عند الجمهور كالسفتجة كما بينت في بحث القرض، وجازت المعاملة عند الحنابلة."
(القسم الثالث، الفصل الأول، المبحث السادس، عقد الصرف، شرائطه، مایترتب علی اشتراطه، 5/ 3673، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102761
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن