بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول :’’کسی نے کہا: اللہ سے ڈرو، اس نے کہا: تو اپنی فکرکر‘‘ کی تخریج


سوال

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث    ہے :’’کسی نے کہا: اللہ سے ڈرو، اس نے کہا :تو اپنی فکر کر‘‘۔

کیا یہ حدیث ہے ؟ اگر یہ حدیث  ہے تو  اس کاحوالہ بتادیں۔

جواب

سوال میں حضرت  عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے جس قول کا مفہوم ذکرکرکےاس کے بارے میں دریافت کیا گیا ہے،یہ قول"السنن الكبرى للنسائي"، "شعب الإيمان للبيهقي"، "المعجم الكبير للطبراني"، "السنن الكبرى للبيهقي"اور"مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"میں مذکور ہے۔"المعجم الكبير للطبراني"میں یہ قول درج  ذیل الفاظ میں مذکور ہے:

"حدّثنا عليُّ بن عبد العزيز، ثنا أبو نُعيم، ثنا سفيانُ عَن أبي إسحاقَ عَن سعد بن وَهبٍ عَن عبدِ الله-رضي الله عنه- قالَ: إنّ مِن أكبر الذنب أنْ يقولَ الرّجل لِأخيه: اتقِ اللهَ، فَيقولُ: عَليك نفسَك، أنتَ تأمرُنيْ؟!". 

(المعجم الكبير، باب العين، خطبة ابن مسعو ومن كلامه، 9/113، رقم: 8587، ط: مكتبة ابن تيمية-القاهرة)

ترجمہ:

’’(حضرت) عبد اللہ (ابن  مسعود) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:بلا شبہ یہ بات  کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ کوئی شخص  اپنے (مسلمان) بھائی سے کہے:اللہ سے ڈرو،اور وہ جواب میں کہے:تم اپنی فکر کرو،تم مجھے( اللہ سے ڈرنے کا)حکم کرتے ہو؟!‘‘۔

حافظ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ"مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"میں مذکورہ قول  ذکرکرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"رَواه الطبرانيُّ، ورِجالُه رِجالُ الصّحيح".

(مجمع الزوائد، كتاب الفتن،  باب في من يؤمر بالمعروف فلا يقبل، 7/271، رقم: 12162، ط: مكتبة القدسي- القاهرة)

ترجمہ:

’’ اس قول کو (امام) طبرانی رحمہ اللہ نے(المعجم الكبير) میں روایت کیا ہے،اور اس کے رجال (یعنی راوی ) ’’صحیح بخاری‘‘ کے رجال ہیں(یعنی ثقہ ہیں)‘‘۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا  کہ یہ قول   ثقہ روات سے سند کے ساتھ  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کی حیثیت سے ملتا ہے ،  تاہم  یہ قول  چوں کہ    غیر مدرک بالقیاس   ہے اور اس  سے ایک عمل کا کبیرہ ہونا ثابت  ہور ہا ہے ، اس لیے یہ قول  حکماً مرفوع اور حدیث ہے۔

"نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر" میں ہے:

"ومثالُ المرفوع مِنَ القولِ حُكماً لًا تصريحاً: أنْ يقول الصّحابيُّ ۔ الّذِيْ لم يأخُذْ عن الإِسرائيليّاتِ۔ مَا لَا مجالَ لِلاجتهادِ فيه، ولَا لهُ تعلّقٌ بِبيانِ لغةٍ أو شَرْحِ غريبٍ، كالإِخبارِ عَنِ الأمُورِ الماضيةِ مِنْ بَدْءِ الخلقِ وأخبارِ الأنبياءِ، أو الآتيةِ كالملاحمِ والفتنِ وأحوالِ يومِ القيامةِ، وكذا الإخبارُ عمّا يحصلُ بِفعلِه ثوابٌ مخصوصٌ أو عِقابٌ مخصوصٌ. وإنّما كان له حكمُ المرفوع؛ لأنّ إِخبارَه بِذلك يَقتضِيْ مُخبِراً له، ومَا لَا مجالَ لِلاجتهادِ فيه يَقتضِيْ مُوَقِّفاً لِلقائلِ بِه، ولا مُوَقِّفَ لِلصّحابة إلّا النبيُّ -صلّى الله عليه وسلّم- أو بَعضُ مِنْ يُخبِر عَنِ الكتبِ القديمةِ؛ فَلِهذا وقعَ الاحترازُ عَنِ القسمِ الثانِيْ. فَإِذا كان كذلك، فَلهُ حكمُ مَا لَوْ قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-، فَهُو مَرفوعٌ، سَواءٌ كان ممّا سمِعه مِنْهُ، أو عنْهُ بِواسطةٍ".

(نزهة النظر، المرفوع من القول حكما لا تصريحا، ص:106-107، ط: مطبعة الصباح - دمشق)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں