حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کتنے غلام آزاد کیے؟
واضح رہے کہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک سخی خاتون تھیں، ان کی سخاوت سے متعلق بہت ساری روایتیں موجود ہیں، ان کے پاس جو کچھ آتاوہ غریبوں اور فقراء کے درمیان تقسیم کردیتی، یعنی انہوں نے اپنی زندگی میں دوسروں کو ترجیح دیتے ہوئے سب کچھ جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والدِ ماجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح اللہ کی راہ میں قربان کردی تھیں، لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سخاوت کی بنیاد پر ان کے کُل آزاد کردہ غلاموں کی تعداد کافی تلاش کے باوجود یقینی طور معلوم نہیں ہوسکی، البتہ ایک صحیح روایت کے مطابق ایک موقع پر چالیس غلاموں کو آزاد فرمایاتھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب حضرت عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے بات نہ کرنے کی نذر مانی اور پھر اس کے کفارے طورپر چالیس تک غلام آزاد کیے، اور جب بھی وہ اپنی اس نذر کو یاد کرتیں تو اس قدر روتیں کہ ان کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا، ذیل میں مذکورہ نذر والا واقعہ اور دیگر ان کی سخاوت پر مشتمل روایات بخاری شریف، اور دیگر کتبِ معتمدہ کے حوالہ سے ذکر کی جاتی ہیں۔
بخاری شریف میں ہے:
"حدثنا أبو اليمان: أخبرنا شعيب، عن الزهري قال: حدثني عوف بن مالك بن الطفيل هو ابن الحارث، وهو ابن أخي عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم لأمها: "أن عائشة حدثت أن عبد الله بن الزبير قال في بيع أو عطاء أعطته عائشة: والله لتنتهين عائشة أو لأحجرن عليها، فقالت: أهو قال هذا؟ قالوا: نعم، قالت: هو لله علي نذر أن لا أكلم ابن الزبير أبدا، فاستشفع ابن الزبير إليها حين طالت الهجرة، فقالت: لا والله لا أشفع فيه أبدا ولا أتحنث إلى نذري، فلما طال ذلك على ابن الزبير كلم المسور بن مخرمة، وعبد الرحمن بن الأسود بن عبد يغوث، وهما من بني زهرة وقال لهما: أنشدكما بالله لما أدخلتماني على عائشة، فإنها لا يحل لها أن تنذر قطيعتي، فأقبل به المسور وعبد الرحمن مشتملين بأرديتهما، حتى استأذنا على عائشة، فقالا: السلام عليك ورحمة الله وبركاته، أندخل؟ قالت عائشة: ادخلوا، قالوا: كلنا؟ قالت: نعم ادخلوا كلكم، ولا تعلم أن معهما ابن الزبير، فلما دخلوا دخل ابن الزبير الحجاب فاعتنق عائشة وطفق يناشدها ويبكي، وطفق المسور وعبد الرحمن يناشدانها إلا ما كلمته وقبلت منه، ويقولان: إن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عما قد علمت من الهجرة، فإنه لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال، فلما أكثروا على عائشة من التذكرة والتحريج، طفقت تذكرهما وتبكي وتقول: إني نذرت والنذر شديد، فلم يزالا بها حتى كلمت ابن الزبير، وأعتقت في نذرها ذلك أربعين رقبة، وكانت تذكر نذرها بعد ذلك فتبكي حتى تبل دموعها خمارها."
(كتاب الأدب، باب الهجرة وقول رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يحل لرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث، 8/ 20، ط: دار طوق النجاء)
ترجمہ: ”عوف بن مالک جو حضرت عائشہ کے بھتیجے ہیں، نقل کرتے ہیں کہ حضرت سے یہ بات کہی گئی کہ عبد اللہ بن زبیر نے کسی بیع یا کسی عطیہ کے متعلق جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا کہا کہ بخدا! عائشہ (اس طرح عطیات دینے سے باز آجائیں ، ورنہ میں ان پر پابندی لگادوں گا، حضرت عائشہ نے پوچھا، کیا واقعی انہوں نے ایسا کہا ہے ؟ لوگوں نے کہا، ہاں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "هو لله علي نذر أن لا أكلم ابن الزبير أبدا" اللہ کے لیے مجھ پر یہ نذر واجب ہے کہ میں ابن زبیر سے کبھی بات نہیں کروں گی۔جب اس جدائی کو بہت عرصہ گذر گیا تو ابن زبیر نے سفارش کرائی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بخدانہ میں کسی کی سفارش قبول کروں گی، اور نہ میں اپنی قسم توڑوں گی۔ پھر جب ابن زبیر پر یہ بات گراں گزرنے لگی تو انھوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن الاسود سے (جو قبیلہ بنی زہرہ سے تھے) گفتگو کی اور ان دونوں سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلو، اس لیے کہ ان کے لیے جائز نہیں کہ مجھ سے قطع تعلق کے لیے نذر مانیں ... مسور اور عبد الرحمن اپنی اپنی چادر اوڑھ کر ابن زبیر کو ساتھ لے چلے ، دونوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے داخلہ کی اجازت مانگی اور کہا .. السلام عليك ورحمة الله وبركاته! کیا ہم داخل ہو جائیں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہاں، انہوں نے پوچھا، سب اندر آجائیں ؟ فرمایا ہاں سب آجاؤ، انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان دونوں کے ساتھ ابن زبیر بھی ہیں، جب اندر داخل ہوئے تو ابن زبیر پردے کے اندر گھس کر حضرت عائشہ سے لپٹ گئے، اور ان کو اللہ کا واسطہ دے کر رونے لگے ، مسور اور عبدالرحمن بھی انہیں اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ ان سے بات کیجئے اور ان کا عذر قبول کیجیے، دونوں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ آپ جانتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع تعلق سے منع فرمایا ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین رات سے ان زیادہ کے لیے جدائی اختیار کرے (اور ترک تعلق کرے)، جب یہ لوگ بہت زیادہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نصیحت کرنے اور اصرار کرنے لگے، تو وہ بھی رو کرا نہیں سمجھانے لگیں کہ میں نے نذر مانی ہے، اور نذر کا معاملہ بہت سخت ہے، لیکن یہ دونوں مسلسل اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے ابن زبیر سے بات کر لی، اور اس نذر کے کفارے میں انہوں نے چالیس غلام آزاد کیے ، اس کے بعد جب بھی وہ اپنی اس نذر کو یاد کرتیں تو اس قدر روتیں کہ ان کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔“
(کشف الباری، کتاب الادب، ص: 473- 474)
الأدب المفردمیں ہے:
"عن عبد الله بن الزبير رضي الله عنهما قال: ما رأيت امرأتين أجود من عائشة وأسماء وجودهما مختلف، أما عائشة فكانت تجمع الشيء إلى الشيء حتى إذا كان اجتمع عندها قسمت، وأما أسماء فكانت لا تمسك شيئا لغد."
(باب سخاوة النفس، ص: 146، ط: مكتبة المعارف، رياض)
مسند احمد میں ہے:
"حدثنا محمد بن علي قال: كانت عائشة تَدَّانُ، فقيل لها: ما لك وللدين؟ قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "ما من عبد كانت له نية في أداء دينه إلا كان له من الله عز وجل عون فأنا ألتمس ذلك العون."
(مسند الصديقة عائشة بنت الصديق رضي الله عنها، 40/ 497، ط: مؤسسة الرسالة)
صحیح بخاری میں ہے:
"حدثنا أبو اليمان: أخبرنا شعيب، عن الزهري قال: حدثني عبد الله بن أبي بكر: أن عروة بن الزبير أخبره: أن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم حدثته قالت: جاءتني امرأة معها ابنتان تسألني، فلم تجد عندي غير تمرة واحدة، فأعطيتها فقسمتها بين ابنتيها، ثم قامت فخرجت، فدخل النبي صلى الله عليه وسلم فحدثته، فقال: (من يلي من هذه البنات شيئا، فأحسن إليهن، كن له سترا من النار)."
(كتاب الأدب، باب: رحمة الولد وتقبيله ومعانقته، 5/ 2234، ط: دار ابن كثير)
الطبقات الكبير لابن سعدمیں ہے:
"عن عائشة قال: رأيتها تصدق بسبعين ألفا وإنها لترفع جانب درعها."
(عائشة، 10/ 66، ط: المكتبة الخانجي، القاهرة)
وفيه أيضا:
"عن أم ذرة قالت: بعث ابن الزبير إلى عائشة بمال في غرارتين يكون مائة ألف فدعت بطبق، وهى يومئذ صائمة، فجعلت تقسم في الناس. قال: فلما أمست قالت: يا جارية هاتى فطرى. فقالت أم ذرة: يا أم المؤمنين أما استطعت فما أنفقت أنت تشترى بدرهم لحما تفطرين عليه؟ فقالت: لا تعنفينى، لو كنت أذكرتنى لفعلت."
(عائشة، 10/ 66، ط: المكتبة الخانجي، القاهرة)
مؤطا امام مالک میں ہے:
"أخبرنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك ، أنه بلغه عن عائشة ، زوج النبي صلى الله عليه وسلم ، أن مسكينا سألها، وهي صائمة، وليس في بيتها إلا رغيف، فقالت لمولاتها: أعطيه إياه، فقالت: ليس لك ما تفطرين عليه، فقالت: أعطيه إياه، قالت: فما أمسينا ،حتى أهدى لنا أهل بيت أو إنسان ما كان يهدي لنا شاة وكفتها، فدعتني عائشة رضي الله عنها ، فقالت: كلي من هذا، هذا خير من قرصك."
(كتاب الجامع، باب الترغيب في الصدقة، 2/ 176، ط: مؤسسة الرسالة)
الطبقات الكبرىمیں ہے:
"قال ابن أبي سبرة: فأخبرني بعض أهل الشام أن معاوية أرسل إلى عائشة: أنت أحق بالشفعة. وبعث إليها بالشراء. واشترى من عائشة منزلها. يقولون بمائة وثمانين ألف درهم. ويقال: بمائتي ألف درهم. وشرط لها سكناها حياتها. وحمل إلى عائشة المال فما رامت من مجلسها حتى قسمته. ويقال اشتراه ابن الزبير من عائشة. بعث إليها يقال: خمسة أجمال بخت تحمل المال فشرط لها سكناها حياتها فما برحت حتى قسمت ذلك. فقيل لها: لو خبأت لنا منه درهما. فقالت عائشة: لو ذكرتموني لفعلت."
(ذكر منازل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، 8/ 131، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606102551
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن