اس واقعہ کے مطابق جس میں ایک اونٹ نے اپنے بے نمازی مالک کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تھی کیا وہ صحابی تھے یا کوئی اور اور یہ واقعہ درست ہے یا من گھڑت؟ اور وہ صحابی جو رات بھر نفلیں پڑھتے اور صبح کی نماز میں غیر حاضر ہوتے یہ حضور کے دور میں تھے یا حضرت عمر ؓ کے دور میں ؟
صورت مسئولہ میں مذکورہ واقعہ ہمیں کتبِ احادیث میں نہیں ملا، بغیر تحقیق کےا س کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں۔فقط واللہ اعلم
نیز دوسرا واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا ہے، اور مذکورہ صحابی حضرت سلیمان بن ابی حثمہ کی مستقل عادت نہ تھی بلکہ ایک آدھ مرتبہ ایسا ہو گیا تھا کہ رات میں عبادت کی وجہ سے فجر کی جماعت میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔
موطأ الإمام مالك میں ہے:
"حدثنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن أبي بكر بن سليمان بن أبي حثمة، أن عمر بن الخطاب فقد سليمان بن أبي حثمة في صلاة الصبح، وأن عمر بن الخطاب غدا إلى السوق، ومسكن سليمان بين المسجد والسوق, فمر على الشفاء أم سليمان، فقال: لم أر سليمان في الصبح، فقالت: إنه بات يصلي، فغلبته عيناه، فقال عمر: لأن أشهد صلاة الصبح أحب إلي من أن أقوم ليلة".
(باب ما جاء في العتمة والصبح، ج: 1، صفحه: 129، رقم الحدیث: 328، ط: مؤسسة الرسالة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403102107
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن