1) کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں؟
2) سب سے پہلے سجدہ کس نے کیا؟
1)محدثین حیات خضر علیہ السلام کا انکار کرتے ہیں، جبکہ صوفیاء اس کے قائل ہیں، یہ موضوع چونکہ علماء حقیقت سے متعلق ہے اس لیے صوفیاء کی بات کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔اس رائے کو جمہور علماء کی رائے بھی کہا گیا ہے۔
2) بعض روایات کے مطابق سب سے پہلے سجدہ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے کیا۔
تفسير ابن كثير میں ہے:
"وقوله تعالى: رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ وَما فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي أي هذا الذي فعلته في هذه الأحوال الثلاثة، إنما هو من رحمة الله بمن ذكرنا من أصحاب السفينة، ووالدي الغلام وولدي الرجل الصالح، وَمَا فَعَلْتُهٗ عَنْ أَمْرِي أي لكني أمرت به ووقفت عليه، وفيه دلالة لمن قال بنبوة الخضر عليه السلام مع ما تقدم من قوله: فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا آتَيْناهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنا وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْماً وقال آخرون: كان رسولا. وقيل: بل كان ملكا، نقله الماوردي في تفسيره، وذهب كثيرون إلى أنه لم يكن نبيا، بل كان وليا، فالله أعلم.
وذكر ابن قتيبة في المعارف أن اسم الخضر بليا بن ملكان بن فالغ بن عامر بن شالخ بن أرفخشذ بن سام بن نوح عليه السلام، قالوا: وكان يكنى أبا العباس، ويلقب بالخضر، وكان من أبناء الملوك، ذكره النووي في تهذيب الأسماء،وحكى هو وغيره في كونه باقيا إلى الآن،ثم إلى يوم القيامة قولين، ومال هو وابن الصلاح إلى بقائه، وذكروا في ذلك حكايات وآثارا عن السلف وغيرهم، وجاء ذكره في بعض الأحاديث، ولا يصح شيء من ذلك، وأشهرها حديث التعزية، وإسناده ضعيف.
ورجح آخرون من المحدثين وغيرهم خلاف ذلك، واحتجوا بقوله تعالى:وَما جَعَلْنا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ [الأنبياء: 34] وبقول النبي صلى الله عليه وسلم [يوم بدر] اللهم إن تهلك هذه العصابة لا تعبد في الأرض وبأنه لم ينقل إنه جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم [ولا حضر عنده ولا قاتل معه، ولو كان حيا لكان من أتباع النبي صلى الله عليه وسلم] وأصحابه، لأنه عليه السلام كان مبعوثا إلى جميع الثقلين:الجن والإنس، وقد قال: لو كان موسى وعيسى حيين لما وسعهما إلا اتباعي وأخبر قبل موته بقليل أنه لا يبقى ممن هو على وجه الأرض إلى مائة سنة من ليلته تلك عين تطرف، إلى غير ذلك من الدلائل."
(الكهف، آية:82، 9/ 179، ط:مكتبة أولاد الشيخ للتراث، مؤسسة قرطبة)
فتح الباري لابن حجر میں ہے:
"ومن مشاهير الملائكة إسرافيل ولم يقع له ذكر في أحاديث الباب، وقد روى النقاش أنه أول من سجد من الملائكة فجوزي بولاية اللوح المحفوظ."
(كتاب بدء الخلق، باب ذكر الملائكة، 6/ 355، ط:مكتبة الملك فهد برياض)
تفسیر معارف القرآن (کاندھلوی) میں ہے:
”خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ خضر علیہ السلام ہمارے درمیان زندہ موجود ہیں اور صوفیائے کرام اور اولیائے عظام بلااختلاف سب اسی پر متفق ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر یہ کہ خِضر علیہ السلام کی حیات کا مسئلہ امور تشریعیہ سے نہیں بلکہ امور تکوینیہ اور اسرار کونیہ کی جنس سے ہےحضرت استاد مولانا سید انور شاہ قدس اللہ سرہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کسی مسئلہ میں علماء شریعت اور اولیائے طریقت کا اختلاف پاؤ تو یہ دیکھو کہ وہ مسئلہ امور تشریعیہ یعنی احکام شریعت سے متعلق ہے یا امور تکوینیہ یا اسرار کونیہ کے باب سے ہے پس اگر وہ مسئلہ امور تشریعیہ یعنی حلال وحرام اور یجوز اور لا یجوز سے متعلق ہو تو اس وقت علماء شریعت کے قول اور فتویٰ کو ترجیح دینا کیونکہ علماء شریعت کا گروہ احکام شریعت سے خوب آگاہ ہے اور اگر وہ مسئلہ امور تکونیہ اور اسرار کونیہ سے متعلق ہو اور افعال مکلفین سے اس کا تعلق نہ ہو تو ا س جگہ اولیائے طریقت اور اہل معرفت وارباب بصیرت کے قول کو ترجیح دینا کیونکہ یہ گروہ اہل کشف اور اہل الہام کا گروہ ہے اور بلا شبہ صادقین او رصالحین کا گروہ ہے یہ گروہ جب اپنا کوئی مشاہدہ اور مکاشفہ بیان کرے تو عقلاً ونقلاً اس کو قبول کرنا ضروری ہے۔“
(سورۃ الکھف، لطائف ومعارف در قصۂ موسیٰ وخضر علیہما الصلاۃ والسلام، ج:5، ص:9، ط:مکتبہ المعارف شہداد پور سندھ پاکستان)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
”حیات خضر علیہ الصلاۃ والسلام:۔
الجواب حامدا ومصلیاً:جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ خضر علیہ الصلاۃ والسلام زندہ ہیں، ہاں بعض اس کے قائل ہیں کہ انتقال کر چکے:
"قال ابن الصلاح: هو حي عند جمهور العلماء والعامة معهم في ذلك، وإنما شذ بإنكاره بعض المحدثين. وتبعه النووي وزاد أن ذلك متفق عليه بين الصوفية وأهل الصلاح، وحكاياتهم في رؤيته والاجتماع به أكثر من أن تحصر انتهى....فتح الباري بتغير، ص:۳۱۰"
(کتاب الأيمان والعقائد،ما یتعلق بالأنبياء وأتباعہم، ج:1، ص:442، ط:دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)
وفیہ اَیضاً:
”حیات خضر علیہ الصلاۃ والسلام کی تحقیق:۔
الجواب حامداً ومصلیا:
محدثین کرام عموماً حضرت خضر علیہ الصلاۃ والسلام کی حیات کے قائل نہیں، صوفیائے عظام قائل ہیں، ان کے حالات پر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں مفصل کلام کیا ہے۔“
(کتاب العقائد،ما یتعلق بالأنبياء وأتباعہم، ج:1، ص:444، ط:دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602102776
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن