۱)میرا سوال یہ ہے کہ حضرت اویس قرنی صحابی تھے یا تابعی؟ اور ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لگایا جائے گا یا رحمہ اللہ تعالیٰ؟ اور ان کا وہ کون سا واقعہ ہےجس میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک صحابی کو ان سے دعا کی درخواست کا فرمایا تھا؟ وہ واقعہ تفصیلاً ذکر فرمادیں۔
۲)میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت یوسف علیٰ نبینا و علیہ السلام میں سے کون زیادہ خوبصورت تھے؟ ایک شخص کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم زیادہ خوبصورت تھے، جب کہ میرا کہنا ہے کہ انبیائے کرام علیھم السلام کے درمیان اس طرح کی تفریق نہیں کرنی چاہیے، اس بارے میں احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ہماری راہ نمائی فرمادیں، کیوں کہ اس سلسلے میں میرا ایک شخص کے ساتھ بحث و مباحثہ ہوتا رہتا ہے۔
۱)حضرت اویس قرنی جلیل القدر تابعی ہیں، آپ اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر نہیں ہوسکے، اس لیے آپ کو شرفِ صحابیت حاصل نہ ہوسکا، البتہ آپ خیر التابعین ہیں، لہٰذا آپ کے نام کے ساتھ ’’رحمہ اللہ تعالیٰ‘‘ لگایا جائے گا۔
حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کا وہ واقعہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان سے دعا کےلیے فرمایا تھا، اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے : مسلم شریف میں مذکور ہے کہ جب بھی یمن کے حلیف قبائل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے دریافت کرتے کہ کیا تم میں اویس بن عامر ہے؟ چناں چہ ایک دن اویس بن عامر کو پا ہی لیا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم اویس بن عامر ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں!
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوں؟ انہوں نے کہا: ہاں!
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: تمہیں برص کی بیماری لاحق تھی، جو اب ختم ہوچکی ہے، صرف ایک درہم کے برابر جگہ باقی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں!
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: تمہاری والدہ ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں!
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیثِ نبوی سنائی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’تمہارے پاس یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم کے برابر باقی ہے، وہ اپنی والدہ کے ساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم بھی کہہ ڈالے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم ضرور پوری فرمائے گا، چناں چہ اگر تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو تو لازمًا کروانا،‘‘ لہٰذا اب آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کر یں، تو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیاکہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں کوفہ جانا چاہتا ہوں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا کوفہ کے گورنر کے نام خط نہ لکھ دوں؟ (تاکہ آپ اسی کی مہمان نوازی اور عزت و تکریم میں رہو) تو انہوں نے کہا: (نہیں) میں گم نام رہوں تو یہ میرے لیے زیادہ پسندیدہ ہے۔
راوی حضرت اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ جب آئندہ سال حج کے موقع پر ان کے قبیلے کے ایک سربراہ کی ملاقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے اویس قرنی کے بارے میں استفسار کیا، تو اس نے جواب دیا کہ میں اسے کسمپرسی اور ناداری کی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں، (یعنی ان کےظاہری حالات کچھ اچھے نہیں ۔)
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بھی مذکورہ حدیث سنائی، پھر جب یہ آدمی واپس اویس قرنی کے پاس آیا تو اس نے ان سے کہا: آپ میرے لیے دعائے استغفار کر دیں۔ حضرت اویس قرنی نے فرمایاکہ تم ابھی نیک سفر سے آئے ہو، تم ہی میرے لیے استغفار کرو۔
اس نے پھر کہا: آپ میرے لیے استغفار کریں۔ حضرت اویس قرنی نے پھر وہی جواب دیا کہ تم ابھی نیک سفر سے آئے ہو، تم ہی میرے لیے استغفار کرو۔ اور مزید یہ بھی کہا کہ کہیں تمہاری ملاقات حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) سے تو نہیں ہوئی؟ اس آدمی نے جواب دیا: جی! میری ملاقات عمر (رضی اللہ عنہ) سے ہوئی ہے۔ تو اویس قرنی نے ان کے لیے استغفار کر دیا، اور پھر لوگوں کو اویس قرنی کے بارے میں معلوم ہونا شروع ہوگیا، تو اویس قرنی اپنا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔
اس واقعہ کے راوی حضرت اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ میں نے انہیں ایک خوبصورت چادر دی، تو جب بھی کوئی شخص وہ چادر دیکھتا تو (بطورِ تعجب) کہتا کہ اویس کے پاس یہ چادر کہاں سے آئی؟
2۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے ہیں انہیں ظاہری و باطنی کمالات کے ساتھ ساتھ عمدہ سیرت اور بہترین صورت سے بھی نوازا، چناں چہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مخلوقِ خدا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت یوسف علیٰ نبینا و علیہ السلام دونوں ہی سب سے زیادہ خوبصورت تھے، البتہ دونوں میں سب سے زیادہ خوب صورت کون تھے؟ تو جان لیجیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہی سب سے زیادہ خوبصورت تھے،جس کی دلیل ”شمائلِ ترمذی“ کی مذکورہ روایت ہے:
"عن قتادة قال: ما بعث الله نبيًّا إلا حسن الوجه، حسن الصوت، و كان نبيكم صلى الله عليه وسلم حسن الوجه، حسن الصوت، و كان لايرجع."
(باب ما جاء في قراءة رسول الله صلى الله عليه وسلم، رقم الحدیث:303، ص:183، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)
ترجمہ: ’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اللہ تعالی نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا، وہ خوب صورت اور بہترین آواز والا تھا اور تمہارا نبی ان سب میں سب سے زیادہ خوب صورت اور سب سے اچھی آواز والا ہے۔‘‘
لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ خوبصورت، صاحبِ کمال اور صاحب ِجمال تھے، اس لیے کہ ظاہری حسن و جمال کے ساتھ آپ ﷺ کے اعضائے مبارکہ اور جسم مبارک کا ہر ہر جز و حصہ بھی ساخت وپرداخت وغیرہ میں سب سے زیادہ اعتدال تھا۔
جب كه حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں جو حدیث مروی ہے کہ ’’انھیں سارے انسانوں کی خوبصورتی اور حسن و جمال میں سے آدھا حسن عطا کیا گیا تھا۔‘‘ اس بارے میں علمائے کرام کی مختلف رائے ہیں، چناں چہ علامہ ابن المنیر فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اس حسن کا نصف دیا گیا تھا جو آپ علیہ الصلاة والسلام کو دیا گیا تھا۔
نیز عربی زبان کا اصول ہے کہ متکلم خود عمومِ کلام میں داخل نہیں ہوتا، اس لحاظ سے حضرت یوسف علیہ السلام کو تمام انسانوں کے حسن و جمال میں سے آدھا حسن دیے جانے سے مراد یہ ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر انسانوں میں حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ الصلاة کو نصف حسن دیا گیا تھا۔
یا یوں کہا جائے کہ حسن وجمال میں جن جن باتوں کا لحاظ کیا جاتا ہے، ان سب میں مجموعی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت یوسف علیہ الصلاة والسلام پر لائق وفائق تھے۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ حسن کی مختلف قسمیں کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حسن کی مختلف انواع ہیں، حسن کی ایک نوع یہ ہے کہ وہ دیکھنے والے کو دفعتًہ متحیر کر دے اور پھر رفتہ رفتہ اس کی سہار (برداشت) ہوتی جائے، حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن ایسا ہی تھا، چنانچہ زلیخا کو آپ علیہ السلام کے حسن کی سہار ہوگئی تھی، انہوں نے ایک دن بھی ہاتھ نہیں کاٹے۔ اور ایک نوع حسن کی یہ ہے کہ دفعتًہ تو متحیر نہ کرے، مگر جوں جوں اس کو دیکھا جائے تحمل سے باہر ہوتا جائے، جس قدر غور کیا جائے اس قدر دل میں گھستا جائے۔ اسی کو شاعر بیان کرتا ہے:يزيدك وجهه حسنا، إذا ما زدته نظراً
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن ایسا ہی تھا کہ اس میں دفعتًہ متحیر کر دینے کی شان ظاہر نہ تھی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں خداداد عظمت و جلال کی ایک شان ایسی تھی کہ دیکھنے والے پر سب سے پہلے اس کا اثر پڑتا تھا، جس کی وجہ سے دیکھتے ہی نیا آدمی مرعوب ہو جاتا تھا، اس کو حسنِ صورت پر آنکھ بھر کر نگاہ ڈالنے کی مہلت ہی نہ ملتی تھی ، تا کہ تحیر کی نوبت آئے۔کما فی حدیث من رآه بداهة هابه. اخرجه الترمذي في الشمائل ( جامع ) اس پر منکشف ہوتا تھا اور دن بدن دل میں گھر کرتا چلا جاتا تھا۔كما في حديث على المذكور من خالطه بشاشة أحبه.(اشرف الجواب، ص:494، ط:مکتبہ عمر فاروق)
حدیث شریف میں ہے:
"عن عمر بن الخطاب قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول "إن خير التابعين رجل يقال له أويس. وله والدة. وكان به بياض. فمروه فليستغفر لكم.
عن أسير بن جابر، قال: كان عمر بن الخطاب، إذا أتى عليه أمداد أهل اليمن، سألهم: أفيكم أويس بن عامر؟ حتى أتى على أويس. فقال: أنت أويس بن عامر؟ قال: نعم. قال: من مراد ثم من قرن؟ قال: نعم. قال: فكان بك برص فبرأت منه إلا موضع درهم؟ قال: نعم. قال: لك والدة؟ قال: نعم. قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول "يأتي عليكم أويس بن عامر مع أمداد أهل اليمن من مراد، ثم من قرن. كان به برص فبرأ منه إلا موضع درهم. له والدة هو بها بر. لو أقسم على الله لأبره. فإن استطعت أن يستغفر لك فافعل". فاستغفر لي. فاستغفر له. فقال له عمر: أين تريد؟ قال: الكوفة. قال: ألا أكتب لك إلى عاملها؟ قال: أكون في غبراء الناس أحب إلي.
قال: فلما كان من العام المقبل حج رجل من أشرافهم. فوافق عمر. فسأله عن أويس. قال: تركته رث البيت قليل المتاع. قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول "يأتي عليكم أويس بن عامر مع أمداد أهل اليمن من مراد ثم من قرن. كان به برص فبرأ منه. إلا موضع درهم. له والدة هو بها بر. لو أقسم على الله لأبره. فإن استطعت أن يستغفر لك فافعل" فأتى أويسا فقال: استغفر لي. قال: أنت أحدث عهدا بسفر صالح. فاستغفر لي. قال: استغفر لي. قال: أنت أحدث عهدا بسفر صالح. فاستغفر لي. قال: لقيت عمر؟ قال: نعم. فاستغفر له. ففطن له الناس. فانطلق على وجهه. قال أسير: وكسوته بردة. فكان كلما رآه إنسان قال: من أين لأويس هذه البردة؟."
(الصحيح لمسلم، كتاب فضائل الصحابة رضي الله تعالى عنهم، باب من فضائل أويس القرني، ج:4، 1969، رقم الحديث:2542، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ويستحب الترضي للصحابة) وكذا من اختلف في نبوته كذي القرنين ولقمان وقيل يقال صلى الله على الأنبياء وعليه وسلم كما في شرح المقدمة للقرماني. (والترحم للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار وكذا يجوز عكسه) الترحم وللصحابة والترضي للتابعين ومن بعدهم (على الراجح) ذكره القرماني وقال الزيلعي الأولى أن يدعو للصحابة بالترضي وللتابعين بالرحمة ولمن بعدهم بالمغفرة والتجاوز."
(مسائل شتى، ج:6، ص:754، ط: ایج ایم سعید)
فیض القدیر للمناوی میں ہے:
"(أعطي) بالبناء للمجهول (يوسف) بن يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم الخليل (شطر الحسن) أي حظا عظيما من حسن أهل الدنيا ولفظ رواية الحاكم: أعطي يوسف وأمه شطر الحسن. قال في الميزان متصلا بالحديث يعني سارة اه. فلا أدري أهو من تتمة الحديث أو من تفسير الراوي. ثم إن قلت هذا يخالفه ما في خبر الحاكم: إن الله قسم له من الجمال الثلثين وقسم بين عباده الثلث وكان يشبه آدم يوم خلقه الله فلما عصى آدم نزع منه النور والبهاء والحسن ووهب له الثلث من الجمال بالتوبة. فأعطى الله يوسف الثلثين. اه. قلت كلا: لا منافاة لأن الشطر قد يطلق ويراد به الجزء من الشيء لا النصف وكم من نظير وبتأمل حديث الحاكم المذكور يعلم اندفاع قول ابن المنير والزركشي في حديث: أعطي يوسف شطر الحسن يتبادر إلى إفهام بعض الناس أن الناس يشتركون في الشطر الثاني وليس كذلك بل المراد أنه أعطي شطر الحسن الذي أوتيه نبينا فإنه بلغ النهاية ويوسف بلغ شطرها."
(حرف الهمزة، رقم الحديث:1187، ج:2، ص:2، ط:المكتبة التجارية الكبرى مصر)
فتح الملھم شرح مسلم میں ہے:
قوله: (وإذا هو قد أعطي شطر الحسن إلخ) وفي حديث أبي سعيد عند البيهقي، وأبي هريرة عند ابن عائذ، والطبراني: فإذا أنا برجل أحسن ما خلق الله، قد فضل الناس بالحسن. كالقمر ليلة البدر على سائر الكواكب، وهذا ظاهره أن يوسف كان أحسن من جميع الناس، لكن روى الترمذي من حديث أنس: فما بعث الله نبياً إلا حسن الوجه حسن الصوت. وكان نبيكم أحسنهم وجهاً، وأحسنهم صوتاً، فعلى هذا فيحمل حديث المعراج أن المراد غير النبيﷺ، ويؤيده قول من قال: أن المتكلم لا يدخل في عمومه خطابه. وأما حديث الباب فقد حمله ابن المنير على أن المراد أن يوسف أعطي شعر الحسن الذي أوتيه نبينا، والله أعلم.
قال العبد الضعيف عفا الله عنه: و فرق شيخ شيخنا القدس الله روحهما بين مفهومي الحسن والجمال، بأن حسن الشيء بالنسبة إلى الرائين، وجماله في حد ذاته، فالحسين من استحسنه الناظرون لصفاء منظره ووضوح رونقه وبهائه، والجميل من كان متناسب الأعضاء، أي: كل عضو منه مناسب لمقابله وملاصقه في صفاته المستحسنة، ووصفه كالطول والقصر، والصغر والكبر، مع صفاء لونه، واعتدال قده، ولعل إلى هذا الجمال الذي ينبغي أن يسمى بالحسن النظري أشار القائل بقوله:يزيدك وجهه حسنا. إذا ما زدته نظراً.
وادعی شیخ شیخنا نور الله مرقده أن نبينا كان أجمل خلق الله، كما أن يوسف عليه الصلاة والسلام كان أحسنه،....... قال علي القاري وقد قال بعض الحفاظ من المتأخرين وهو من مشايخنا المعتبرين :إنه كان أحسن من يوسف إذ لم ينقل أن صورته كان يقع من ضوؤها على الجدران ما يصير كالمرآة يحكي ما يقابله، وقد حكي ذلك عن صورة نبينا ﷺ، لكن الله تعالىٰ ستر عن أصحابه كثيراً من ذلك الجمال الباهر، فإنه لو بزر لهم لم يطيقوا النظر إليه، كما قاله بعض المحققين: أما جمال يوسف الله فلم يستر منه شيء."
(كتاب الإيمان، باب الإسراء، ج:2، ص:251،250، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603101240
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن