بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں کتنے دن رہے؟


سوال

حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں کتنے دن تک رہے، راجح قول کیا ہے؟

جواب

حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بارے میں  مختلف اقوال  ہیں ،امام شعبی رحمہ اللہ  سے اس بارے میں یہ روایت ہے کہ مچھلی نے ان کو چاشت کے وقت نگلا اور شام کو باہر نکال دیا ، قتادہ رحمہ اللہ سے روایت  تین دن کی ہے  ،اہل کتاب کی کتابوں میں ہے کہ  یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ تین دن اور تین راتیں رہے ،عطا اور ابن جبیر رحمہمااللہ سے سات دن کی روایت ہے ،ضحاک رحمہ اللہ سے   بیس دن کی  روایت ہے ،ابن عباس ،ابن جریج ،ابی مالک ،سدی ،مقاتل بن سلیمان ،کلبی اور عکرمہ سے چالیس دن کی روایت ہے ،البتہ  جب یونس علیہ السلام کو مچھلی نے ایک چٹیل میدان میں باہر نکالا تو اس وقت آپ بیمار تھے، اور آپ کی بیماری کے سبب اللہ تعالی نے  بطور سایہ کے ایک کدو کی بیل اگادی تھی ۔

قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے:

"فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ  وَأَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ"(سورۃ الصافات،آیت نمبر :145،146)

ترجمه:

"سو ہم نے ان کو ایک میدان میں ڈال دیا اور وہ اس وقت مضحمل تھے، اور ہم نے ان پر ایک بیل دار درخت بھی اگا دیا تھا۔"(بیان القرآن )

ابن عباس اور سدی کی روایت ہے کہ جب آپ مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے تو آپ کا جسم پیدا شدہ بچہ کی طرح ہو گیا تھا ،پس   آپ علیہ السلام پر بیماری اور حالت کی تبدیلی سے اتنی بات  ثابت ہوتی ہے کہ آپ  مچھلی کے پیٹ کچھ نہ کچھ طویل مدت تک رہے ہیں،اور  اللہ نے  معجزہ کے طور پر آپ کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا ،اور مچھلی پر آپ کے  ہضم کرنے کو مشکل کر دیا ،مدت چاہے تھوڑی ہو یا زیادہ   ۔جہاں تک بات راجح قول کی ہے تو مفسرین نے ان اقوال میں کسی ایک کو  راجح   قرار نہیں  دیا ہے ،کیوں  کہ اس بات کاصحیح علم  صرف اور صرف وحی کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے ،اور جب اس بارے میں قرآن اور احادیث میں نہیں ہے تو اس کی معرفت کی کوئی حاجت بھی نہیں ہونی چاہیے۔اسی وجہ سے بعض مفسرین نے  اس بارے میں اقوال کے ذکر کرنے کو ضروری بھی نہیں سمجھا ہے ۔

تفسیر روح المعانی میں ہے :

"واختلف ‌في ‌مدة ‌لبثه فأخرج عبد الله بن أحمد في زوائد الزهد وغيره عن الشعبي قال: التقمه الحوت ضحى ولفظه عشية وكأنه أراد حين أظلم الليل، وأخرج عبد بن حميد وغيره عن قتادة قال: إنه لبث في جوفه ثلاثا، وفي كتب أهل الكتاب ثلاثة أيام وثلاث ليال، وعن عطاء وابن جبير سبعة أيام، وعن الضحاك عشرين يوما، وعن ابن عباس وابن جريج وأبي مالك والسدي ومقاتل بن سليمان والكلبي وعكرمة أربعين يوما، وفي البحر ما يدل على أنه لم يصح خبر ‌في ‌مدة ‌لبثه عليه السلام في بطن الحوت وَهُوَ سَقِيمٌ مما ناله، قال ابن عباس والسدي: إنه عاد بدنه كبدن الصبي حين يولد، وعن ابن جبير أنه عليه السلام ألقي ولا شعر له ولا جلد ولا ظفر. ولعل ذلك يستدعي بحكم العادة أن لمدة لبثه في بطن الحوت طولا ما۔"

(سورۃ الصافات،ج:12،ص:139،ط:دار الکتب العلمیہ )

تفسیر المنیر میں ہے:

"لم يبين القرآن الكريم ‌مدة ‌لبثه في بطن الحوت، لذا اختلف العلماء في تعيين المدة، فقيل: بعض يوم، أو ساعة واحدة، وقيل: ثلاثة أيام، وقيل: سبعة أيام، وقيل: عشرين يوما، وقيل: أربعين يوما. والمعول عليه أن الله أبقاه حيا في بطن الحوت، فجعله عسير الهضم عليه، في مدة قليلة أو كثيرة، معجزة له۔"

(سورۃ الصافات ،ج:23،ص:143 ،ط:دار الفکر)

تفسیر الماتریدی میں ہے:

"وقول أهل التأويل: إن يونس مكث في ‌بطن ‌الحوت أربعين يومًا، أو ثلاثة أيام، ونحو هذا فذلك لا يعلم إلا بالوحي، فإن ثبت الوحي فهو هو، وإلا ليس بنا إلى معرفة ذلك حاجة۔"

(سورۃ الانبیاء ،ج:7 ،ص:371 ،ط:دار الکتب العلمیہ)

البحر المحیط میں ہے:

"وذكر في ‌مدة ‌لبثه في بطن الحوت أقوالا متكاذبة، ضربنا عن ذكرها صفحا۔"

(سورۃ الصافات ،ج:9 ،ج:124 ،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں